Skip to main content
یہ ہم سب کا وطن ہے، اور ہم سب کو اس کا تحفظ کرنا ہے۔
کیا اُن جرنیلوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے پاکستانی سیاست میں مداخلت کر
کے ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا؟ جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے فوج جیسے
مقدس ادارے کو سیاسی کھیل کا حصہ بنایا، کیا اُن سے قوم کو جواب نہیں لینا چاہیے؟
کیا جنرل ضیاءالحق سے لے کر حالیہ برسوں میں جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے کردار — جن
پر سیاست میں غیر آئینی مداخلت اور فیصلوں کے الزامات ہیں — ان سب کا کوئی احتساب
نہیں ہونا چاہیے؟ کیا پاکستان کی موجودہ فوج نے ان سابقہ غلطیوں پر قوم سے معافی
مانگی ہے؟ کیا کوئی واضح اعلان کیا گیا ہے کہ مستقبل میں فوج سیاست میں مداخلت نہیں
کرے گی؟ قوم کو صرف یہ یقین دہانی کافی نہیں کہ "ہم غیر سیاسی ہو گئے ہیں" — جب تک
عملی اقدامات، شفاف احتساب، اور آئندہ کے لیے ضمانت نہ دی جائے، تب تک ماضی کی
غلطیوں کا سایہ حال اور مستقبل پر منڈلاتا رہے گا۔ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے، تو
آئین کی بالادستی، اداروں کی حدود، اور احتساب کا یکساں معیار لازمی ہے — چاہے وہ
سیاستدان ہو یا جنرل۔ فوج ہماری ہے — جیسے خاندان ہمارا ہوتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے
جسے ہم اپنے خون، پسینے اور کمائی سے پالتے ہیں، اور جس پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔
لیکن افسوس کہ چند جرنیلوں نے، اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس میں، فوج جیسے
مقدس ادارے کا استعمال کیا — اور قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ جب عام پاکستانی
دن رات محنت کر کے ٹیکس دیتا ہے، تو کیا اسے یہ حق نہیں کہ وہ اُن جرنیلوں یا اعلیٰ
افسران سے حساب مانگے جنہوں نے عوامی پیسے کو ذاتی کاروبار، جائیداد اور بیرونِ ملک
اثاثوں میں بدل دیا؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہی احتساب کا وقت قریب آتا ہے، یہی
لوگ پورے خاندان سمیت ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں؟ اگر ان کا مقصد صرف پاکستان کی
خدمت تھا، تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں اسی ملک میں رہنا چاہیے تھا — لیکن چونکہ
انہوں نے لوٹ مار کی ہوتی ہے، اس کا خوف ان کی زبان پر تو نہیں، مگر عمل سے صاف
ظاہر ہو جاتا ہے۔ میرا یہ سوال صرف جرنیلوں سے نہیں — بلکہ ہر اُس اعلیٰ عہدے پر
بیٹھے شخص سے ہے، چاہے وہ سیاستدان ہو، جج ہو، بیوروکریٹ یا جنرل — جو پاکستان کو
لوٹ کر، ملک کو برباد کر کے خاموشی سے باہر جا بستے ہیں۔ کیا ہم سب جانور ہیں؟ کیا
ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم اپنے دیے ہوئے ٹیکس کا حساب مانگ سکیں؟ یہی لوگ جب چاہیں
اداروں کا وقار بیچ دیں، آئین توڑ دیں، سیاست پر قبضہ کر لیں، اور پھر جب جواب دہی
کی بات آئے تو ’’ادارے کا تقدس‘‘ کا پردہ تان لیں — یہ اب مزید نہیں چلے گا۔ اگر
کوئی ان باتوں سے اختلاف رکھتا ہے — تو آئے، بات کرے، دلیل سے بات کرے۔ میں تیار
ہوں بات سننے اور کرنے کے لیے۔ میں کسی ایک کا نام نہیں لے رہا — کیونکہ سب جانتے
ہیں کہ وہ کون ہیں۔ ہمیں جواب چاہیے۔ ہمیں احتساب چاہیے۔ ہمیں انصاف چاہیے۔ پاکستان
کسی کا ذاتی کاروبار نہیں — یہ ہم سب کا وطن ہے، اور ہم سب کو اس کا تحفظ کرنا ہے۔

Comments
Post a Comment