20 August 2025

تفصیل (تفصیلی نکات): آزادی اور آج کا پاکستان - کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟

آزادی اور آج کا پاکستان  - کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟


اگست14  کیا صرف آزادی کا دن ہے یا یہ دکھ بھری قربانیوں اور افسوسناک واقعات کی یاد کا دن بھی ہے؟ 

کیا وہ لوگ جو پاکستان کی سرزمین پر پہلے سے رہتے تھے اور وہ جو ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے،

 دونوں کی خوشیاں اور دکھ برابر تھے؟ 

کیا جو لوگ پاکستان میں ہی رہ گئے اور جنہیں ہجرت نہ کرنی پڑی، وہ ہجرت کرنے والوں کے غم کو محسوس کر سکتے ہیں؟

کیا کبھی کسی نے کسی موقع پر ان مہاجرین کی قربانیوں پر دو لفظ ہمدردی یا حوصلے کے کہے؟


 چاہے اپنوں کا خون بہے یا پرایوں کا، خون تو خون ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ انسانیت کا قتلِ عام دونوں طرف ہوا۔ یہ وہ درد ہے جسے صرف وہی جانتا ہے جو اس سے گزرا ہو، باقی لوگ چاہیں بھی تو اس احساس کی گہرائی کو نہیں سمجھ سکتے۔

 یہ احساس اللہ تعالیٰ ہر کسی کو نہیں دیتا۔

میری دعا ہے کہ اللہ سب انسانوں کو اپنی اپنی جگہ پر سکون، محبت اور چارہ گری کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

آمین ثم آمین۔


اسی طرح میری فیملی بھی ہریانہ، ضلع کرنال کے کچھ علاقے، مثلاً کھارو کھیڑا اور رتن گڑھ سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھی۔ جانتے ہیں یہ سب لوگ کیوں آئے تھے؟

 صرف اس لیے کہ پاکستان بن گیا تھا—

ایسا پاکستان جس میں صرف اور صرف انسانیت، مسلمانیّت اور بھائی چارے کا پرچار ہو گا۔


یہی کہ ایک غریب کی ریڑھی سڑک کے بیچوں بیچ ٹوٹ کر پڑی ہو،
 جس سے اس کے خاندان کی روزمرہ کی زندگی چلتی تھی؟

یہی کہ ایک سفید پوش اپنی عزت بچانے کے لیے کونے کھدروں میں پناہ لیتا پھرے؟

"چھور اُچا کا چوہدری تے لوچی رن پردان"


یعنی جب شریف لوگ مایوس ہو کر کنارے ہو جائیں تو پھر بدماش اور لچے لفنگے راج کرتے ہیں۔
جس معاشرے میں پانی کے کولر کے ساتھ گلاس کو زنجیر سے باندھ دیا جاتا ہے—
جس ملک میں کاروبار کا دوسرا نام رشوت، ملاوٹ، بے ایمانی اور دھوکہ دہی بن چکا ہو—

اسے بھی اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ یہ ملک اب انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا، کیونکہ جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے، 
وہ اتنی ہی گہرائی تک یہ جانتا ہے کہ اس نے اس ملک کو کس کس طرح لوٹا ہے۔
اسی لیے انصاف کے اداروں کا ہر سربراہ، اور بڑے سے بڑا سیاستدان، آخرکار اس ملک کو چھوڑ کر باہر ہی نکل جاتا ہے۔


یہ سب لوگ صرف اس لیے پاکستان آئے تھے کہ پاکستان وہ ملک ہوگا جہاں صرف انسانیت، مسلمانیّت اور بھائی چارے کا پرچار ہوگا۔

 جہاں ہم سب بھائیوں کی طرح ایک قوم کی طرح، ایک آسمان کے نیچے، ایک خالقِ حقیقی کا نام لے کر حقیقی آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔ ایسی دھرتی جہاں نہ کوئی خوف ہوگا، نہ پریشانی۔ اس زمین پر نہ کسی کے حق تلفی کا اندیشہ ہوگا،

 نہ کوئی کسی کو ناحق تنگ کر سکے گا۔

یہ زمین کا ٹکڑا ہم سب کے لیے امن کا گہوارہ بنے گا، اسی لیے اس کا نام پاکستان رکھا گیا تھا۔

لیکن سوال یہ ہے: کیا ہمارے بزرگوں نے اپنا خون آج کے پاکستان کے لیے دیا تھا؟

 کیا آج کا پاکستان وہی پاکستان ہے جو قائداعظم کا خواب تھا؟ 

کیا آج کے حالات، آج کا ماحول، وہی منزل ہے جس کے لیے ہمارے بڑوں نے اپنی زندگیاں قربان کیں اور اپنا خون دیا؟


آج میں اپنے اُن بزرگوں کو کیا جواب دوں گا؟ 

کیا ان کی دی گئی قربانیوں کا یہی مذاق اڑایا جا رہا ہے؟

یہی آج کا پاکستان ہے۔

آج اس ملک میں ایک مشہور پنجابی کہاوت حرف بہ حرف سچ ہو رہی ہے:

اور آج یہی حال ہے۔

آپ کس ادارے کی بات کرتے ہیں؟

 یہاں کون سا ادارہ انصاف دیتا ہے؟

 یہاں تو حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے اداروں کے دروازے پر کھڑا ایک چھوٹا سا دربان بھی اُس وقت تک دروازہ نہیں کھولتا جب تک کچھ مل نہ جائے۔

 انصاف اور قانون کے محافظ خود بددیانتی اور لوٹ مار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔  تو پھر عوام کس پر بھروسہ کرے؟


جس ملک کے محافظ ادارے خود کو بہت مضبوط ظاہر کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی حیثیت اتنی ہے کہ جیسے ہی ان کا سربراہ اپنی نوکری سے فارغ ہوتا ہے، وہ دوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر سانس لیتا ہے۔

اسی لیے وہ یہاں رہنے کے بجائے بھاگ جانا بہتر سمجھتا ہے۔


سوال یہ ہے: آخر کیوں؟


کیا کبھی آپ نے یہ سوچنے کا موقع پایا ہے کہ آخر بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ کیوں ہمیشہ ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں؟
وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس ملک کے ساتھ کیا کچھ کر دیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ نظام زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں۔ اسی لیے وہ بھاگنے کو ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں۔


لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ نظام انسانوں کا بنایا ہوا نہیں ہے،

 اس کائنات کو چلانے والا صرف اور صرف ایک ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔


اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف اللہ کی رحمت کا انتظار کرنا چاہیے؟
نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔


اسلام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جب ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے تب ہی ہم اللہ کی رحمت کے اہل بن سکیں گے۔

بغیر محنت کے سب کچھ صرف جذباتی باتیں ہیں، وقتی شغل ہیں، اور وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔


دنیا کی ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا کلچر اور اپنی شناخت منائے۔ ان کے طریقے الگ الگ ہوتے ہیں۔ 

لیکن اصل فرق یہ ہے کہ وہ اپنی محنت اور قربانی کے ساتھ اپنے جشن کو بامقصد بناتے ہیں۔ 

اگر ہم نے بھی اپنی قربانیوں اور محنت کو زندہ نہ کیا، تو ہمارے تہوار اور جشن صرف رسم بن کر رہ جائیں گے،

 مقصد کھو بیٹھیں گے۔


کیا قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک، اور اس کے باسی عوام کے لیے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی بدترین حالت کو نظر انداز کرکے، حقیقت سے آنکھیں چرا کر، محض شُغل میلہ، ڈانس، لُڈی اور نمائشی جشن منائیں؟

کیا کوئی سنجیدہ اور باعزت قوم ایسا کر سکتی ہے؟
ہرگز نہیں۔ 

یہ سب کچھ دراصل ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں۔

اگر کوئی دلیل ہے تو سامنے لائیے—کیا اس تماشے کا کوئی منطقی جواز دیا جا سکتا ہے؟
کیا دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں؟


ہمارے اعمال چیخ چیخ کر کہتے ہیں: نہیں! ہم زندہ قوم نہیں بلکہ ایک بے حس، مردہ قوم ہیں۔ اور صرف مردہ نہیں، بلکہ ایسے مردہ سے بھی بدتر جو سرد خانے میں پڑا ہو۔

ایسی قوم جسے نہ اپنے حق کا شعور ہے، نہ قومیت کا احساس ہے، نہ دکھ کا درد ہے، نہ مستقبل کی فکر ہے۔
یہ دراصل ایک ایسا ہجوم ہے جو بس چل رہا ہے اندھوں کی طرح—
بغیر کسی منزل کے، بغیر کسی مقصد کے۔

جہاں ایک دوسرے کو محض جھوٹی تسلیاں اور دلاسے دے کر آگے بڑھا جا رہا ہے: "چلتے رہو، چلتے رہو۔"

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک؟ 

کیا یہ اندھا سفر ہی ہمارا مقدر ہے؟


خدا کی قسم!  ہم لوگ دیمک کی طرح گہرائیوں میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔

 اگر آج بھی ہم سب اپنی حقیقت سے نظریں چرا کر اسی خود فریبی میں زندہ رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہم بھی ایک عبرت ناک تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ وہ وقت جب دنیا ہم پر ہنسے گی، اور ہم یہ سمجھتے رہیں گے کہ شاید وہ ہمارے ساتھ خوشی منا رہی ہے، مگر حقیقت میں وہ ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔


ایک سادہ سی مثال دیکھ لیجیے:


آپ کبھی کسی کے گھر جائیں، اندر داخل ہوتے ہی آپ کو صفائی، ترتیب اور خوبصورت نشست و برخاست دکھائی دے گی۔

 مگر جیسے ہی اُس گھر سے نکل کر اُس گلی میں قدم رکھیں گے تو اُلٹی تصویر نظر آئے گی—گندگی، کوڑا کرکٹ، بدبو اور غلاظت۔ بازار میں جائیں تو تعفن سے بھری نالیاں اور سڑکوں پر پھیلا کچرا نظر آتا ہے۔

یہ سب کیا ہے؟

 یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس قوم کا معاشرتی شعور ختم ہو چکا ہے۔  معاشرہ مردہ ہو چکا ہے۔ 

 صرف "میں" اور "میرا" باقی رہ گیا ہے:
میرا گھر، میری فیملی، میرا آرام—باقی سب بھاڑ میں جائیں۔


یہی خود غرضی، یہی بے حسی ہمیں لے ڈوبی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ:


  • ایک جیب کترا ہو یا پولیس والا،

  • ایک چھوٹا کلرک ہو یا افسر شاہی،

  • ایک سیاستدان ہو یا وزیرِاعظم،

  • ایک عام وکیل ہو یا سپریم کورٹ کا چیف،

  • یہاں تک کہ ایک سیکورٹی گارڈ ہو یا فوج کا سربراہ—

سب کے سب رشوت، سفارش، لوٹ مار، بددیانتی اور کرپشن کے دلدل میں جکڑے جا چکے ہیں۔


یعنی پورا نظام گل سڑ چکا ہے۔ اور یہ صرف اوپر والوں کا قصور نہیں، بلکہ ہر سطح پر یہی حال ہے۔

 قوم کے اجتماعی شعور اور معاشرتی جڑیں کٹ چکی ہیں۔


آج پاکستان ایک بار پھر 1947 کے دہانے پر کھڑا ہے۔ 


اُس وقت بھی لوگوں نے ہجرت کی، قتل و غارت اور لوٹ مار ہوئی، نہ کوئی پوچھنے والا تھا نہ کوئی سننے والا۔

 آج بھی حالات کچھ مختلف نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت یہ ابتداء تھی اور آج یہ انجام کی طرف بڑھتا ہوا سفر ہے۔


کیا ترقی ہوئی ہے؟

 آج بھی ایک عام آدمی کو نہ اپنی رائے آزادانہ طور پر بیان کرنے کی اجازت ہے اور نہ اپنے روزگار کا حق۔

 اگر زبان کھولو تو جیل مقدر ہے، اگر محنت مزدوری کرو تو ریڑھی لگانے تک کی آزادی نہیں۔

 کاندھے پر سامان رکھ کر بیچنا بھی جرم ہے۔ 

اور اگر ملک چھوڑ کر جانا چاہو تو ویزہ نہیں دیا جاتا کیونکہ حاکموں کو فکر ہے کہ اگر سب لوگ نکل گئے تو ان کی خدمت کون کرے گا۔


کاروبار؟

 اس پر بھی ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری ہے۔ 

اگر تم کاروبار کرو گے تو تمہیں ٹیکسوں اور پابندیوں کے ذریعے کچلا جائے گا۔

 یہ حق صرف سیاستدانوں کے بچوں، فوجی اداروں یا چند مخصوص لوگوں کو ہے۔

 باقی عوام کے لیے بے عزتی اور محرومی ہے۔

کبھی یہ ملک بڑے بڑے بزنس اور اداروں کے نام سے جانا جاتا تھا—سیگل، راوی، ریحان، اسٹیل مل، پی آئی اے اور نہ جانے کتنے اور۔ آج وہ سب زمین بوس ہیں۔ کیوں؟ 

صرف اس لیے کہ یہ ملک عوام کے لیے نہیں بلکہ چاپلوسوں، خوشامدیوں، فوجی و سیاسی ٹولوں، قانون کے ٹھیکیداروں اور جوٹھے سلامت برداروں کے لیے بچا کر رکھا گیا ہے۔ عام انسان کے لیے نہیں۔


اس میں ایک عام انسان کی صرف اتنی عزت ہے جتنی محلے میں کسی بھکاری کی ہوتی ہے۔ کیا یہ سب لوگ بے قصور ہیں؟ یقیناً نہیں۔

 آپ نے شاید یہ کہاوت سنی ہوگی: "سر پر جیسا کھائے جاؤ اور نکلا جاؤ"۔ اگر نہیں سنی تو اپنے بڑوں سے پوچھ لیں۔

 ہماری قوم بھی کچھ ایسی ہی ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر۔ آج ٹی وی یا سوشل میڈیا دیکھ لیں،

 دو ہزار ارب روپے کی کرپشن کی کہانیاں عام ہیں۔

 کاروبار بند، بجلی اور پانی کی کمی، صنعتیں بند، اور کاروبار رک چکے ہوں، تب بھی لوگ انتظار کرتے ہیں 

کہ کوئی آسمانی فرشتہ آئے اور سب کچھ ٹھیک کرے۔ لیکن کیوں؟

 آسمان کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ 

اللہ نے بار بار صاف صاف کہہ دیا تھا: محنت کرو، اپنی کوشش کرو، اپنی تقدیر پر چھوڑ دو، ورنہ کوئی امید مت رکھو۔

اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی قوم اپنے دیے گئے کام کرے گی تو اس کی مدد ہوگی، اور اگر نہیں کرے گی تو دوسری قوم کو لا کر اسے بدل دیا جائے گا۔


پتا نہیں یہ سب آج کا مولانا حضرات سمجھ پائیں گے یا نہیں،

 لیکن وہ بھی تو بہت مصروف ہیں۔ ان تمام عوامل کے ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ میں آپ کو یہ سب یہاں بتا سکتا ہوں۔ 

اگر آج کا امام واقعی امام بننے کے قابل ہوتا تو یہ حالت یہاں نہ ہوتی۔ آپ پوچھیں گے، وہ کیسا ہے؟

 بالکل ویسا ہی جیسے ہمارا نبی ﷺ تھا، جو وقت کی حکومت کے ہاتھ میں نہ آیا لیکن اصول اور تعلیمات کا علم کسی کے ہاتھ نہ جانے دیا۔

آج کے مولانا کی حالت دیکھ لیں، وہ بولتے ہیں کہ مسجد قیامت تک قائم رہے گی، لیکن جو پیچھے سے مسجد گرانے والے ہیں ان کے ساتھ سمجھوتہ بھی ہوا ہے۔

 اگر یہ شامل نہیں تو پھر وہی منظر سامنے آیا جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ پاکستان جیسی زمین پر بھی مسجد اس طرح گرائی جا سکتی ہے؟


ہو سکتا ہے وہ غلط جگہ پر بنی ہو، لیکن جب بن رہی تھی تو کون دیکھ رہا تھا؟

 پھر آج کیوں؟ 

اگر گرانا ضروری تھا تو وہاں کے ناظمین پر اعتماد کیوں نہیں کیا گیا؟

 ایک جگہ کی تعمیر کی وجہ سے دوسری جگہ کے لوگ متاثر کیوں ہوئے؟

 لوگوں کے کاروبار، دکانیں، روزگار سب کا کوئی مناسب انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟

آخر میں، میں کون سا دکھڑا سناؤں؟

 میرا سینہ زخمی ہے۔ اگر میری باتوں سے آپ کے دل کو تکلیف پہنچی، یا نیند حرام ہوئی، یا کسی طرح جھٹکا لگا،

 تو یہ میری خوش نصیبی ہے۔

 اور اگر آپ کے سر پر کوئی اثر نہ ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ میں نے اپنا کام صحیح طریقے سے کیا،

 کیونکہ آخرکار، صرف آپ کا اپنا نصیب ہے۔


میری دعا ہے کہ اللہ مجھے ہمیشہ سچ اور حق کے ساتھ جوڑے رکھے، اور حسن اور نیکی کے راستے میں میرے ساتھ ہو۔ آمین، سبحان اللہ، آمین۔

میری دل کی دعا ہے کہ آپ سب بھی خوش رہیں اور اللہ کی طرف آئیں، کیونکہ یہی ہمارا صحیح راستہ ہے۔

یا اللہ، اس کائنات کے مالک، ہم سب کو اپنے راستے کی طرف رہنمائی عطا فرما۔

 ہمیں حق و انصاف کے راستے سے ہٹنے نہ دینا، اور ہمیں عملی طور پر اپنے فرائض پورے کرنے کی توفیق عطا فرما۔

آمین، سبحان اللہ، آمین۔

— ایم عرفان احمد صدیقی —


#pakistan #14agust #paksitankiazadi #1947partition #kiyapakistanazadha #azadipakitan







 

16 August 2025

خلاصہ: آزادی اور آج کا پاکستان - کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟

 آزادی اور آج کا پاکستان



کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟

تحریر: محمد عرفان صدیقی

14 اگست – خوشی یا دکھ کا دن؟

پاکستان کی آزادی کا دن 14 اگست خوشیوں کے ساتھ ساتھ دکھ بھری یادوں کا بھی دن ہے۔ یہ دن لاکھوں قربانیوں، ہجرتوں، خون اور آنسوؤں کی یاد دلاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ:

کیا پاکستان میں رہ جانے والوں اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کے دکھ اور خوشیاں برابر ہیں؟

کیا جنہیں ہجرت نہ کرنی پڑی وہ مہاجرین کے درد کو سمجھ سکے؟

اور کیا کبھی کسی نے ان کی قربانیوں پر دو لفظ ہمدردی یا حوصلے کے کہے؟

میری اپنی فیملی بھی ہریانہ کے ضلع کرنال کے علاقے اور "کھارو کھیتا" اور "رتن گڑھ" سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھی۔
آپ کو پتہ ہے وہ کیوں آئے تھے؟

خون تو اپنوں کا ہو یا پرایوں کا، بہنا نہیں چاہیے تھا۔ مگر بہا۔ یہ درد صرف وہ جان سکتا ہے جو اس سے گزرا ہو۔ باقی سب کے لیے یہ صرف ایک کہانی ہے۔

پاکستان کا خواب اور آج کی حقیقت

ہمارے بزرگ صرف اس لیے ہجرت کر کے پاکستان آئے کہ یہاں انصاف ہوگا، بھائی چارہ ہوگا، خوف و جبر نہیں ہوگا۔
لیکن آج کا پاکستان دیکھ کر سوال اٹھتا ہے:

کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟

کیا قربانیاں اس لیے دی گئی تھیں کہ آج غریب کی ریڑھی سڑک پر ٹوٹ کر پڑی رہے اور اس کی عزت نفس روند دی جائے؟

کیا یہ ملک صرف طاقتوروں کے لیے بنایا گیا تھا؟

معاشرتی زوال کی علامات

آج ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار ہے۔ گھروں کے اندر صفائی اور ترتیب ہے مگر گلیوں اور بازاروں میں گندگی اور بدبو کا ڈھیر۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ اجتماعی شعور ختم ہو چکا ہے۔ ہر شخص صرف اپنے لیے سوچتا ہے:
"میرا گھر، میری فیملی، میرا فائدہ… باقی سب بھاڑ میں جائیں۔"

اسی وجہ سے نظام کمزور ہو کر بکھر چکا ہے۔ سیاست سے لے کر عدلیہ تک، کاروبار سے لے کر اداروں تک، ہر سطح پر کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی عام ہے۔

مایوسی یا نئی شروعات؟

جب لکڑی کا ایک ٹکڑا ٹوٹتا ہے تو اسے جوڑا جا سکتا ہے، مگر جب پوری لکڑی ہی ٹوٹ جائے تو یا تو آگ لگا کر نئی لکڑی ڈھونڈنی پڑتی ہے یا دوبارہ نئے سرے سے آغاز کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان آج پھر 1947 کے موڑ پر کھڑا ہے، لیکن اس بار ہجرت نہیں بلکہ شعور کی ضرورت ہے۔

معاشرے میں ایک مشہور پنجابی کہاوت ہے:

"چور اچکا چودھری تے لوچی رن پردان"

یعنی جب شریف لوگ کنارے ہو جائیں تو پھر لچے لفنگوں کا راج ہو جاتا ہے۔ اور یہی حال آج کے پاکستان کا ہے۔

قوم کے لیے اصل راستہ

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ:
"جو قوم اپنا کام خود نہیں کرتی، میں اس پر اپنی رحمت نازل نہیں کرتا۔"

لہٰذا صرف دعاؤں اور نعرے بازی سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں:

اپنی ذمہ داری کو پہچاننا ہوگا۔

ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔

انصاف اور حق کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔

دعا

آخر میں میری یہی دعا ہے:
"یا اللہ! ہمیں سچ کے ساتھ کھڑے رہنے کی ہمت دے۔ ہمیں حق کے ساتھ جوڑے رکھ۔ ہمیں زندہ قوم بنا جو ظلم کے آگے نہ جھکے بلکہ اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ ہمیں وہ پاکستان عطا کر جو ہمارے بزرگوں کا خواب تھا اور قائداعظم کا تصور تھا۔"

آمین ثم آمین۔

#pakistan #14agust #paksitankiazadi #1947partition #kiyapakistanazadha #azadipakitan

16 June 2025

20 May 2025

افسوس ہے خواجہ سعد رفیق صاحب، آپ کے ان الفاظ پر۔

 افسوس ہے خواجہ سعد رفیق صاحب، آپ کے ان الفاظ پر۔

کسی بھی انسان کو دوسرے کے ایمان کا پیمانہ بنانے کا حق حاصل نہیں۔
یہ فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، نہ کہ کسی سیاستدان، عالم یا عام انسان کا۔

ہمیں چاہیئے کہ بحیثیت انسان وہی کام کریں جو ہمارے اختیار میں ہیں — سچ بولیں، انصاف کریں، عزت دیں، عدل کو فروغ دیں، اور اپنی زبان سے دوسروں کے دل نہ دکھائیں۔

ایمان کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا، یہاں ہم سب کو اپنی نیتوں، اعمال اور کردار کا حساب دینا ہے۔
لہٰذا ایسی بڑی بڑی باتیں کر کے لوگوں کے دلوں میں نفرت اور تقسیم کا بیج بونا کسی طور پر بھی ایک باشعور شہری یا سیاستدان کو زیب نہیں دیتا۔

قوم کو جوڑنے کی ضرورت ہے، نہ کہ توڑنے کی۔
برائے مہربانی، ایسی "ہواؤں" میں "غبارے" نہ بھریں جو بعد میں پھٹ کر صرف نفرت پھیلائیں۔ #خواجہسعدرفیق #KhawajaSaadRafique




شاہد آفریدی صاحب، آپ نے جس قوم کے نام پر شہرت حاصل کی، اسی قوم کے لوگوں کو"کتا" کہہ دینا نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔

 شاہد آفریدی صاحب، آپ نے جس قوم کے نام پر شہرت حاصل کی، اسی قوم کے لوگوں کو "کتا" کہہ دینا نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔

یہ دوہرا معیار کیوں؟
کیا آپ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو طاقتوروں کے سامنے جھک جاتے ہیں اور کمزوروں پر زبان درازی کرتے ہیں؟
یا پھر آپ کسی "خاص مخلوق" میں شمار ہوتے ہیں جسے عام عوام سے ہٹ کر سمجھا جائے؟

پاکستان میں کئی قومیں آباد ہیں، اور اگر آپ کسی خاص قوم سے تعلق رکھتے ہیں تو برائے مہربانی واضح کریں کہ آپ خود کو کس قوم کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔

جہاں تک بات ہے کسی آرمی چیف سے محبت کرنے کی — تو یہ بھی یاد رکھیں کہ قوم کی محبت صرف ایک فرد کے لیے نہیں بلکہ پورے ادارے کے لیے ہوتی ہے، چاہے وہ پاک فوج ہو، ائرفورس ہو یا نیوی۔
اگر آپ کسی ایک شخصیت کو اُٹھا کر بت پرستی کی طرح پیش کریں گے، تو یہ خود ادارے کے وقار کو مجروح کرتا ہے۔

آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آپ صرف ایک کرکٹر نہیں، بلکہ پاکستان کا نمائندہ چہرہ ہیں۔
اس حیثیت سے آپ کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں۔
آپ کی زبان، آپ کا رویہ اور آپ کے الفاظ پوری قوم کے جذبات پر اثر ڈالتے ہیں۔

اگر کسی نے آپ سے بدتمیزی کی، تو آپ اخلاق اور صبر سے جواب دے سکتے تھے، نہ کہ پوری قوم کو گھٹیا الفاظ سے نوازتے۔
اور اگر برداشت نہ ہو، تو خاموشی بہترین جواب ہوتی ہے۔

ہم وہی لوگ ہیں جو سچ بولیں گے، سچ سنیں گے اور سچ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ان شاءاللہ۔
ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، کیونکہ آپ نے پاکستان کا نام روشن کیا — لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ قوم کی توہین کریں اور کوئی کچھ نہ کہے۔

ہماری گزارش ہے کہ آپ اور تمام ویورز، بات دلیل سے کریں، محبت سے کریں، تاکہ دوسرے بھی آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوں۔

اللہ ہمیں سچ، انصاف اور بردباری کے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔
آمین۔



An-Naas - Tafheem-ul-Quran

 An-Naas - Tafheem-ul-Quran

http://download.quranurdu.com/Tafheem-ul-Quran%20by%20Syed%20Moududi/volume06/(114)an-naas/rukoo01an-naas.mp3



19 May 2025

یہ ہم سب کا وطن ہے، اور ہم سب کو اس کا تحفظ کرنا ہے۔

کیا اُن جرنیلوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے پاکستانی سیاست میں مداخلت کر کے ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا؟ جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے فوج جیسے مقدس ادارے کو سیاسی کھیل کا حصہ بنایا، کیا اُن سے قوم کو جواب نہیں لینا چاہیے؟ کیا جنرل ضیاءالحق سے لے کر حالیہ برسوں میں جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے کردار — جن پر سیاست میں غیر آئینی مداخلت اور فیصلوں کے الزامات ہیں — ان سب کا کوئی احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ کیا پاکستان کی موجودہ فوج نے ان سابقہ غلطیوں پر قوم سے معافی مانگی ہے؟ کیا کوئی واضح اعلان کیا گیا ہے کہ مستقبل میں فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی؟ قوم کو صرف یہ یقین دہانی کافی نہیں کہ "ہم غیر سیاسی ہو گئے ہیں" — جب تک عملی اقدامات، شفاف احتساب، اور آئندہ کے لیے ضمانت نہ دی جائے، تب تک ماضی کی غلطیوں کا سایہ حال اور مستقبل پر منڈلاتا رہے گا۔ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے، تو آئین کی بالادستی، اداروں کی حدود، اور احتساب کا یکساں معیار لازمی ہے — چاہے وہ سیاستدان ہو یا جنرل۔ فوج ہماری ہے — جیسے خاندان ہمارا ہوتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جسے ہم اپنے خون، پسینے اور کمائی سے پالتے ہیں، اور جس پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ چند جرنیلوں نے، اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس میں، فوج جیسے مقدس ادارے کا استعمال کیا — اور قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ جب عام پاکستانی دن رات محنت کر کے ٹیکس دیتا ہے، تو کیا اسے یہ حق نہیں کہ وہ اُن جرنیلوں یا اعلیٰ افسران سے حساب مانگے جنہوں نے عوامی پیسے کو ذاتی کاروبار، جائیداد اور بیرونِ ملک اثاثوں میں بدل دیا؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہی احتساب کا وقت قریب آتا ہے، یہی لوگ پورے خاندان سمیت ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں؟ اگر ان کا مقصد صرف پاکستان کی خدمت تھا، تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں اسی ملک میں رہنا چاہیے تھا — لیکن چونکہ انہوں نے لوٹ مار کی ہوتی ہے، اس کا خوف ان کی زبان پر تو نہیں، مگر عمل سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے۔ میرا یہ سوال صرف جرنیلوں سے نہیں — بلکہ ہر اُس اعلیٰ عہدے پر بیٹھے شخص سے ہے، چاہے وہ سیاستدان ہو، جج ہو، بیوروکریٹ یا جنرل — جو پاکستان کو لوٹ کر، ملک کو برباد کر کے خاموشی سے باہر جا بستے ہیں۔ کیا ہم سب جانور ہیں؟ کیا ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم اپنے دیے ہوئے ٹیکس کا حساب مانگ سکیں؟ یہی لوگ جب چاہیں اداروں کا وقار بیچ دیں، آئین توڑ دیں، سیاست پر قبضہ کر لیں، اور پھر جب جواب دہی کی بات آئے تو ’’ادارے کا تقدس‘‘ کا پردہ تان لیں — یہ اب مزید نہیں چلے گا۔ اگر کوئی ان باتوں سے اختلاف رکھتا ہے — تو آئے، بات کرے، دلیل سے بات کرے۔ میں تیار ہوں بات سننے اور کرنے کے لیے۔ میں کسی ایک کا نام نہیں لے رہا — کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں۔ ہمیں جواب چاہیے۔ ہمیں احتساب چاہیے۔ ہمیں انصاف چاہیے۔ پاکستان کسی کا ذاتی کاروبار نہیں — یہ ہم سب کا وطن ہے، اور ہم سب کو اس کا تحفظ کرنا ہے۔

18 May 2025

Fabrics Stock lot

Fabrics Stock lot Coated Fabrics Use for: Textile Industries Like Shoes, Bags Manufacturing Material: Coated Fabrics like Artificial Leather and Coated Colored for the Shoes and Bags Industries. Condition: Rolls (small, big rolls mix) Contact us for more information +821066791588 gwtgmarket@gmail.com www.gbworldtradecoltd.com #koreanfabrics #textilestocklot #coatedfabrics #textilestocks #fabricsstocklot #koreanfabricsstocklots https://youtu.be/VeV-FUSeWW8

14 May 2025

درحقیقت، ہر ملک اور ہر ریاست اس شخص کی ہو سکتی ہے ?

السلام علیکم، میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان ایک پاکستانی ہیرو ہیں، جنہوں نےنوجوانوں کو سوچنے کا ایک نیا زاویہ دیا۔ اُن کے اچھے کاموں کو سراہنا ضروری ہے — اور جتنا کسی نے کام کیا ہے، اُتنا ہی کریڈٹ دینا بھی انصاف کا تقاضا ہے۔ لیکن کسی ایک فرد کے ایک عمل کو بنیاد بنا کر اُسے دیوتا بنا دینا، اس کی پرستش کرنا، یہ نہ عقلمندی ہے اور نہ ہی ایک باشعور مسلمان کا شایانِ شان۔ پاکستان ہم سب کا ہے۔ درحقیقت، ہر ملک اور ہر ریاست اس شخص کی ہو سکتی ہے جو اس میں رہتا ہے، کام کرتا ہے، اور وہاں کی بہتری کے لیے کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن کسی بھی معاشرے میں رہنے کے لیے کچھ بنیادی ذمے داریاں نبھانا ضروری ہوتی ہیں: جہاں رہیں، وہاں کے قانون کا احترام کریں۔ مقامی لوگوں کی عزت کریں۔ اس جگہ کو اپنا سمجھ کر صاف اور محفوظ رکھیں۔ مصیبت یا بیماری کی صورت میں دوسروں کا ساتھ دیں۔ مُلک یا ریاست مخصوص لوگوں کی جاگیر نہیں ہوتی۔ یہ سوچ کہ "یہ ملک صرف ہمارے لیے ہے" — ایک محدود، خودغرض اور نقصان دہ نظریہ ہے، جس سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ دنیا، یہ کائنات ہم سب کی ہے۔ اگر کوئی اسے صرف اپنی جاگیر سمجھتا ہے تو یہ زیادتی ہے۔ انسان جہاں بھی رہتا ہے، وہاں اختلافِ رائے بھی ممکن ہے، مسائل بھی آ سکتے ہیں — لیکن بات چیت، نیک نیتی اور مثبت سوچ سے ہر مسئلے کا حل ممکن ہے۔ اصل چیز نیت اور رویہ ہے۔ اگر آپ کی نیت صاف ہو، آپ مثبت سوچ رکھتے ہوں، تو کوئی بھی راستہ مشکل نہیں۔ انسانیت زندہ باد۔ - ایم۔ عرفان اے صدیقی #gbwtrade http://youtube.com/post/UgkxzrhfcSsKEp90WxH9-hknf5mLVcAz2pEQ?si=OzmPjQKzi7-zrzaD

13 May 2025

شکریہ مودی ، شکریہ بھارت

شکریہ مودی ، شکریہ بھارت! شاید آپ کو اندازہ ہی نہ ہو کہ آپ نے ہمیں کیا دے دیا ہے! شکریہ کہ آپ نے ہمیں طویل محرومیوں کے بعد ایسی سرشار کر دینے والی خوشی دی، جس کے لیے یہ قوم مدتوں سے ترس رہی تھی۔ شکریہ کہ آپ نے اس قوم کے سینے میں پھر سے جذبۂ جہاد اور حب الوطنی کا وہ الاؤ روشن کر دیا، جس پر برسوں سے راکھ جمی تھی۔ ہمارے دلوں کی تپش ماند پڑتی جا رہی تھی، نظریات کمزور ہو رہے تھے، اور یہ جذبات خطرناک حد تک سمتِ مخالف کی طرف بڑھ رہے تھے۔ آپ نے ایک لمحے میں انھیں بیدار کر دیا۔ شکریہ کہ آپ نے ہمیں موقع فراہم کیا کہ پوری قوم نسل، زبان، مسلک، فرقے اور سیاست سے بالاتر ہو کر بنیان مرصوص بن گئی۔ شکریہ کہ آپ نے ایک عام پاکستانی اور پاک فوج کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلوں کو مٹا کر، انہیں پھر سے محبت، اعتماد اور وفاداری کے رشتے میں جوڑ دیا۔ یہی رشتہ ہے جو دشمن کے سامنے ہمیں ناقابلِ شکست بناتا ہے۔ شکریہ کہ ہماری فضائیہ کو بھی طویل عرصے کے بعد پلٹنے جھپٹنے اور لہو گرمانے کا عملی موقع فراہم کیا کہ پاک آرمی تو ہمیشہ انگیج رہتی ہے لیکن فضائیہ کو موقع تم نے ہی دیا. شکریہ کہ آپ نے ہمیں ہزیمت، مایوسی، اور احساسِ کمتری کی نفسیات سے نکال کر عزت، وقار اور سربلندی کا راستہ دکھایا۔ آج ہم اقوامِ عالم کے سامنے سینہ تان کر، سرفراز ہو کر کھڑے ہیں۔ اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہے، اور اس کا سہرا آپ کے سر ہے! اور سب سے بڑھ کر شکریہ کہ آپ نے ہمارے ایمان کو جگایا، ہمارے اللہ پر یقین کو فولاد کی مانند مضبوط کر دیا۔ یہ جوش، یہ ولولہ، یہ دعائیں، یہ سجدے، سب اسی یقین کی علامت ہیں۔ یہ سب وہ تحفے ہیں، جو اب کوئی چاہ کر بھی ہم سے نہیں چھین سکتا۔ دل کی گہرائیوں سے شکریہ

تفصیل (تفصیلی نکات): آزادی اور آج کا پاکستان - کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟

آ زادی اور آج کا پاکستان  - کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟ اگست14  کیا صرف آزادی کا دن ہے یا یہ دکھ بھری قربانیوں اور افسوسنا...