We are Trading company (Import Export) Business Paper and Plastic film in Packaging materials Stock lots Fabrics Textile and Printing media industries. #paper #plastic #stocklots
14 May 2025
درحقیقت، ہر ملک اور ہر ریاست اس شخص کی ہو سکتی ہے ?
السلام علیکم، میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان ایک پاکستانی ہیرو ہیں، جنہوں
نےنوجوانوں کو سوچنے کا ایک نیا زاویہ دیا۔ اُن کے اچھے کاموں کو سراہنا ضروری ہے —
اور جتنا کسی نے کام کیا ہے، اُتنا ہی کریڈٹ دینا بھی انصاف کا تقاضا ہے۔ لیکن کسی
ایک فرد کے ایک عمل کو بنیاد بنا کر اُسے دیوتا بنا دینا، اس کی پرستش کرنا، یہ نہ
عقلمندی ہے اور نہ ہی ایک باشعور مسلمان کا شایانِ شان۔ پاکستان ہم سب کا ہے۔
درحقیقت، ہر ملک اور ہر ریاست اس شخص کی ہو سکتی ہے جو اس میں رہتا ہے، کام کرتا
ہے، اور وہاں کی بہتری کے لیے کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن کسی بھی معاشرے میں رہنے کے
لیے کچھ بنیادی ذمے داریاں نبھانا ضروری ہوتی ہیں: جہاں رہیں، وہاں کے قانون کا
احترام کریں۔ مقامی لوگوں کی عزت کریں۔ اس جگہ کو اپنا سمجھ کر صاف اور محفوظ
رکھیں۔ مصیبت یا بیماری کی صورت میں دوسروں کا ساتھ دیں۔ مُلک یا ریاست مخصوص لوگوں
کی جاگیر نہیں ہوتی۔ یہ سوچ کہ "یہ ملک صرف ہمارے لیے ہے" — ایک محدود، خودغرض اور
نقصان دہ نظریہ ہے، جس سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ دنیا، یہ
کائنات ہم سب کی ہے۔ اگر کوئی اسے صرف اپنی جاگیر سمجھتا ہے تو یہ زیادتی ہے۔ انسان
جہاں بھی رہتا ہے، وہاں اختلافِ رائے بھی ممکن ہے، مسائل بھی آ سکتے ہیں — لیکن بات
چیت، نیک نیتی اور مثبت سوچ سے ہر مسئلے کا حل ممکن ہے۔ اصل چیز نیت اور رویہ ہے۔
اگر آپ کی نیت صاف ہو، آپ مثبت سوچ رکھتے ہوں، تو کوئی بھی راستہ مشکل نہیں۔
انسانیت زندہ باد۔ - ایم۔ عرفان اے صدیقی #gbwtrade
http://youtube.com/post/UgkxzrhfcSsKEp90WxH9-hknf5mLVcAz2pEQ?si=OzmPjQKzi7-zrzaD
13 May 2025
شکریہ مودی ، شکریہ بھارت
شکریہ مودی ، شکریہ بھارت!
شاید آپ کو اندازہ ہی نہ ہو کہ آپ نے ہمیں کیا دے دیا ہے!
شکریہ کہ آپ نے ہمیں طویل محرومیوں کے بعد ایسی سرشار کر دینے والی خوشی دی، جس کے لیے یہ قوم مدتوں سے ترس رہی تھی۔
شکریہ کہ آپ نے اس قوم کے سینے میں پھر سے جذبۂ جہاد اور حب الوطنی کا وہ الاؤ روشن کر دیا، جس پر برسوں سے راکھ جمی تھی۔ ہمارے دلوں کی تپش ماند پڑتی جا رہی تھی، نظریات کمزور ہو رہے تھے، اور یہ جذبات خطرناک حد تک سمتِ مخالف کی طرف بڑھ رہے تھے۔ آپ نے ایک لمحے میں انھیں بیدار کر دیا۔
شکریہ کہ آپ نے ہمیں موقع فراہم کیا کہ پوری قوم نسل، زبان، مسلک، فرقے اور سیاست سے بالاتر ہو کر بنیان مرصوص بن گئی۔
شکریہ کہ آپ نے ایک عام پاکستانی اور پاک فوج کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلوں کو مٹا کر، انہیں پھر سے محبت، اعتماد اور وفاداری کے رشتے میں جوڑ دیا۔ یہی رشتہ ہے جو دشمن کے سامنے ہمیں ناقابلِ شکست بناتا ہے۔
شکریہ کہ ہماری فضائیہ کو بھی طویل عرصے کے بعد پلٹنے جھپٹنے اور لہو گرمانے کا عملی موقع فراہم کیا کہ پاک آرمی تو ہمیشہ انگیج رہتی ہے لیکن فضائیہ کو موقع تم نے ہی دیا.
شکریہ کہ آپ نے ہمیں ہزیمت، مایوسی، اور احساسِ کمتری کی نفسیات سے نکال کر عزت، وقار اور سربلندی کا راستہ دکھایا۔ آج ہم اقوامِ عالم کے سامنے سینہ تان کر، سرفراز ہو کر کھڑے ہیں۔ اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہے، اور اس کا سہرا آپ کے سر ہے!
اور سب سے بڑھ کر
شکریہ کہ آپ نے ہمارے ایمان کو جگایا، ہمارے اللہ پر یقین کو فولاد کی مانند مضبوط کر دیا۔ یہ جوش، یہ ولولہ، یہ دعائیں، یہ سجدے، سب اسی یقین کی علامت ہیں۔ یہ سب وہ تحفے ہیں، جو اب کوئی چاہ کر بھی ہم سے نہیں چھین سکتا۔
دل کی گہرائیوں سے شکریہ
کون جیتا؟ کیسے جیتا؟ چند سنجیدہ باتیں!
کون جیتا؟ کیسے جیتا؟ چند سنجیدہ باتیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ باتیں اب ذرا سنجیدگی سے سن لیجیے۔
دیکھئے پاکستان کے متعلق انڈیا جو باتیں کہتا ہے، وہ سارا غلط نہیں، ہم بھی دوسری قوموں کی طرح ایک قوم ہیں، ہم میں بھی غلطیاں اور کمزوریاں ہیں، معیشت ہماری کمزور ہے، یہ اس لیے بھی ہے کہ ہم نے اپنے ملک کی سیاست میں تجربات بہت کئے، اس لیے بھی کہ انڈیا نے تقسیم کے وقت بھی ہمارے ساتھ دھاندلی بہت کی، کشمیر تو واضح ہے، کچھ اور ریاستیں بھی قبضہ کر لی گئیں،اسلحہ ساز فیکٹریاں، خزانہ، حکومتی سٹرکچر سب ادھر تھا، تقسیم کی آری سے ہمارا حصہ بھی کیک کی طرح کاٹ کے انڈیا کی جھولی میں ڈال دیا گیا، وغیرہ وغیرہ
انڈیا آپ سے کم از کم ایک ارب زیادہ ہے، دنیا کی سب سے بڑی آبادی، لڑائی میں بھی زیادہ اور بطور صارف بھی زیادہ! فوج میں سات گنا زیادہ ہے۔فضائیہ کی ایک دس کی ریشو ہے، اس کا دفاعی بجٹ ہاتھی ہے اور آپ کا بکری بھی نہیں ۔۔ نسبت تناسب میں سب کچھ زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت میں شراکت کے لیے دنیا اس کی طرف لپکتی ہے، مغرب ہی نہیں ،مسلم دنیا بھی! اس کے دفاعی اور سٹریٹیجک پارٹنر اسرائیل ،یورپ اور امریکہ ہیں، روس روز اول سے اس کے ساتھ ہے۔
سچی بات یہ ہے پاکستان اس سارے سیناریو میں ایک نقطہ معلوم ہوتا ہے سوائے غیرت اور ایمان کے پاکستان کے پاس کچھ قابل ذکر سرمایہ نہیں۔
اس سب کے باوجود یہ اللہ کا فضل ہے کہ پاکستان ایک طرف تیل اور معیشت سے دنیا کو چلانے والے عربوں سے قوت میں مستحکم اور بہتر ہے تو دوسری طرف اسرائیل اگر کسی سے ڈرتا ہے تو وہ پاکستان ہے اور مغربی دنیا اگر مسلم ورڈ میں کسی کو بطور قوت قابل ذکر سمجھتی ہے تو وہ بھی پاکستان ہے۔
یہ سب آپ کی کسی صلاحیت یا محنت کا نتیجہ نہیں، صلاحیت و محنت تو دور کی بات ہم تو وہ سسٹم ہی نہیں بنا سکے ملک جس سے آگے بڑھتے ہیں۔حالات اگر یہ ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری گڈری میں عظمت کا یہ لعل کہاں سے آیا؟
آپ جتنا بھی سوچئے، سوائے اللہ کی خاص مدد اور رحمت کے ریاضی کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں مل سکتا۔وہ ملک صفر سے جس کا آغاز ہوا، وہ اگر آج دنیا کی گنتی کی چند ایٹمی قوتوں میں سے ایک قوت اور واحد مسلم ایٹمی طاقت ہے تو اس میں ہمارا کتنا کمال ہے؟ یہ سوچ لیجئے، ہم نے کب اس پر تھنک ٹینک بٹھائے تھے؟ بلجیئم میں ایک شخص نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالتے کلمہ گو مسلمانوں کو دیکھا تو بلک اٹھا، وہ خط لکھتا رہا، اٹامک انرجی کمیشن سے کسی نے اسے گھاس نہ ڈالی، پھر بھٹو کے دل میں یہ بات سما گئی، کام شروع ہوا،امریکی مجبور تھے، توجہ نہ دے سکے اور پھر اللہ نے وہ دن دکھایا جب سب کچھ چھین لینے والے بھارت کے مقابل آپ نے زیادہ ایٹمی پٹاخے پھوڑ دئیے، دنیا نے بھارت کے نہیں آپ کے کان پکڑ لئے، پابندیوں میں معیشت آپ کی اڑ گئی مگر آپ نے روکھی سوکھی کھاکے غیرت کو سیراب کرلیا۔
پھر میزائل ٹیکنالوجی اور فضائیہ ۔۔ ذرا سا تھم کے کہیں بیٹھ کے سوچئے کہ کیا واقعی ہم اپنے سسٹم اور اپنی معیشت کے علی الرغم ایسے ہی توانا تھے کہ یہ سب کچھ کر سکتے؟ قطعا نہیں! تو کوئی تو ذات تھی نا جو ہم جیسے نکموں کی انگلی پکڑ کے ایک سمت میں ہمیں دوڑاتی چلی گئی۔ ایسے کہ آج دنیا ہماری دوڑ دیکھ کے دنگ ہے؟
اچھا اب موجودہ حالات پر آ جائیے، رمضان کے بعد اور اس سے پہلے وہ کون سا زخم ہے جو آپ نے اپنے جسم پر سہا نہیں، جعفر ایکسپریس سے پہلے کتنے علما کے، اور پھر افواج کے اور فورسز کے جنازے ہم نے اٹھائے، افغانستان نے ہماری سرحد کو آتشیں کر دیا، ملک میں ہماری سیاسی تقسیم ایسی تھی کہ نادان لوگ انڈین آرمی کے گن گا رہے تھے، بھارت اکیلا بھی ہوتا تو اس کا پاکستان سے کیا مقابلہ تھا؟ مگر وہ اکیلا کب تھا؟ اس کے پاس اسرائیلی و روسی ٹیکنالوجی اور آئی ٹی تھی، مغربی اسلحہ اور امریکی آشیرباد بھی تھی ۔۔ پاکستان کو سب پتہ تھا سو وہ چاہتا تھا جنگ نہ چھڑے۔۔ اس لیے بھی کہ ہمیں معیشت کے لالے پڑے تھے، لوگ ہمارے تقسیم ہوئے پڑے تھے ۔۔۔مگر جنگ ہم پر مسلط کر دی گئی۔
کیا آپ کو اس صبح سے پہلے کی اپنی کیفیت یاد نہیں، جب آپریشن بنیان مرصوص ابھی لانچ نہیں ہوا تھا،مارے شرم کے کیا تم دنیا کا سامنا کرنے کی جرات اپنے میں پاتے تھے؟ لیکن پھر کیا ہوا؟ اس ضعیف اور اکیلے کر دئیے گئے ملک پر اللہ کی مدد اترنا شروع ہوئی۔ پہلی مدد تمھاری بے خوفی تھی، جنگ کے ہنگام بھی تمھاری امن کی حالت تھی، کیا یہ اللہ کی مدد نہ تھی کہ احزاب کے مقابل، یعنی دنیا کے مقابل تمھیں وہ امن اور مزاح عطا ہوا کہ انڈیا کو تمھارے چینل اپنے ملک میں بین کرنے پڑے۔تم سمجھتے ہو کہ یہ محض شغل تھا؟ میں سمجھتا ہوں یہ اللہ کی مدد تھی، دنیا میں بالی وڈ کا تہلکا رکھنے والا ملک اگر آپ کے سوشل میڈیا سے تھرا اٹھا تھا اور گھبرا کے اپنے کان اور دروازے آپ کی آواز کیلئے بند کر رہا تھا تو یہ اللہ کی مدد تھی، پہلی مدد ، سکینت اترنے کی کیفیت والی مدد، وہی جو بدر میں بھی اتری تھی، وہی مدد!
پھر اس رات کو یاد کیجیے، جب آپ کے پہلو میں جنگی دنیا کی قسمت اور قیمت بدل رہی تھی،تمھیں اس معرکے کا بالکل پتہ نہ تھا، تمھیں اب بھی پورا پتہ نہیں کہ اس رات کیا ہوا تھا؟ اس رات تمھارے ہاتھوں اللہ مغرب کی اسلحے کی بالادستی کچرا کر رہا تھا، چائنہ کو اعتماد بخش رہا تھا،یہ ایک سٹریٹیجک شفٹ تھا، جو کس آسانی، کس روانی اور کس گمنامی سے ظہور پا رہا تھا۔ اچھا کیا لازم تھا کہ یہ معرکہ یہیں لڑا جاتا؟ چائنہ کو اسٹیبلش ہونا تھا تو اس کے اور سو راستے تھے، یہ کہاں لکھا تھا کہ چائنہ کی اسلحی بالادستی کی لانچنگ میں انڈیا رسوا ہوگا اور پاکستان سرخرو؟ یہ اللہ کی تقدیر تھی اور اللہ کی خالص مدد! سچ کہتا ہوں، اللہ کی مدد نہ ہوتی تو انڈیا تمھیں ایک بدمست ہاتھی کی طرح ، ایک چیونٹی بنا کے مسل دیتا مگر تم چٹان بن گئے، جس سے ٹکرا کے انڈیا خود پاش پاش ہوتا رہا۔ زخم کھاتا اور گھائل ہوتا رہا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اس دھرتی پر تم پیغمبروں کی اولاد ہو یا اولیا کی جماعت، مگر یہ کہتا ہوں کہ اللہ تمھاری مدد کر رہا ہے، ممکن ہے یہ کسی پرانے وعدے کی بنا پر ہو، وہ جو کبھی تم نے پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا لگایا اور پھر بھول گئے۔ یا ممکن ہے کہ اللہ مستقبل کے کسی کائناتی فوٹو گراف میں رنگ بھرنے کیلئے تمھیں تیار کر رہا ہو، تمھیں قوت بنا کے اور بچا کے رکھنا چاہتا ہو، مجھے نہیں معلوم،مگر مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ ہم نے فتح ون میزائل چلایا ضرور ہے مگر یہ فتح ہم نے لی نہیں، یہ فتح ہمیں دی گئی ہے، ہم نے فتح کا میزائل چلایا ضرور مگر اسے فتح تک پہنچایا اللہ کی مشیت و تقدیر نے ہے،
ومارمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی۔۔
آج عالم یہ ہے کہ دنیا آپ کو مان گئی ہے، عرب کہتے ہیں، صدیوں بعد پہلی دفعہ ہم نے مسلم جسد کے علاوہ بھی کہیں آتش و آہن برستے دیکھا تو دل اور آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، یورپ میں تمھارا والہانہ پن دیکھ کے یورپی پولیس کے سپاہی تک تمھارے ساتھ اچھلنے کودنے لگے ہیں۔
اچھا آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکی ٹرمپ نے فی الفور جنگ بندی کروا کے آپ پر احسان کیا ہے؟ یہ وہی ٹرمپ ہے نا جو کہتا تھا، یہ پندرہ سو سال سے لڑتے آئے ہیں، لڑنے دیں، ہمیں کوئی پروا نہیں۔ پھر وہ کیوں دوڑے دوڑے بیچ میں آئے؟ دراصل وہ مطمئن تھے کہ انڈیا خوب پھینٹی لگا لے گا،سو وہ چاہتے تھے،پاکستان پھینٹی کھاتے ہوئے ہمیں نہ پکارے، پھر مگر جب دیکھا کہ انڈیا کو پڑنے والی مار کے نشانات اور درد خود یورپ اور امریکہ تک پہنچ رہے ہیں، تو حضرت نے بیچ میں آنے میں اتنی بھی تاخیر نہیں کی کہ یہ لوگ خود سے سیز فائر کا اعلان کر سکیں، سب سے کم وقت میں ٹویٹ ہی کیا جا سکتا تھا، سو ٹرمپ نے وہی کیا۔
اور اب آخر میں
یہ بہرحال ایک نئی دنیا ہے، انڈیا کی نہیں پاکستان کی نئی دنیا، یہ جنگ اللہ نے ایک تاریخی جنگ بنا دی ہے، جس میں ملینز ڈالر کے رافیل کی بجائے جے ٹین سی کے متبادل کی طرف دنیا رخ کرنے والی ہے، یہ رخ تم نے بدلا ہے، یہ عزت تمھیں اللہ نے دی ہے۔
تمھیں یاد ہے نا تم کیا تھے؟
اور اب دیکھ رہے ہو نا کہ اللہ نے تمھیں کیا بنا دیا ہے؟
تو بس اتنا یاد رکھنا کہ یہ تم نے نہیں کیا، تمھارے اللہ نے تمھیں نواز دیا ہے۔ یہ یاد رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایسے مرحلے پر سوچ میں ذرا گلچ آنے سے اللہ کی مدد کا سارا سوفٹ وئیر کرپٹ ہو جاتا ہے۔ احد کے واقعات تمھارے سامنے ہیں
اور آج کے حالات تمھارے سامنے!
فی امان اللہ
12 May 2025
بہت سے کام رہتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
بہت سے کام رہتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کروڑوں لوگ بُھوکے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
کھلونوں والی عُمروں میں اِنہیں ہم موت کیوں بانٹیں ؟
بڑے معصوم بچے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
پڑوسی یار ! جانے دو، ہنسو اور مسکرانے دو
مسلسل اشک بہتے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
بھلا اقبال و غالب کا کہاں بٹوارہ ممکن ہے ؟
کہ یہ سانجھے اثاثے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
اگر نفرت ضروری ہے تو سرحد پر اکٹھے کیوں ؟
پرندے دانہ چُگتے ہیں، تمہارے بھی ہمارے بھی
چلو مل کر لڑیں ہم تُم جہالت اور غربت سے
بہت سپنے اُدھورے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
سنبھالیں اُن کو مل جُل کر سکھائیں فن محبت کا
بہت جوشیلے لڑکے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
اِدھر لاہور اُدھر دِلّی، کہاں جائیں گے ہم فارس
یہی دو چار قصبے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
جنگ کے بادل چھٹ گئے ہیں
جنگ کے بادل چھٹ گئے ہیں
بنگلہ دیش فضایہ کے ایک آفیسر کا تجزیہ
ابھی تک کا سب سے بہترین تجزیہ
پڑھ کر دِل خُوش ہو جائے گا۔
یہ ہے تحریر “The War Clouds Are Over” از اقبال لطیف کا مکمل اردو ترجمہ:
جنگ کے بادل چھٹ گئے ہیں
تحریر: اقبال لطیف
طاقت، جب تک آزمائی نہ جائے، مقدس سمجھی جاتی ہے۔ مگر جب اسے بلا ضرورت دکھایا جائے، تو یہ اس کی حدود کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ یہی باز رکھنے کا بنیادی اصول ہے: ایک مضبوط رہنما کو کبھی چھڑی نہیں گھمانا چاہیے — جب تک یقین نہ ہو کہ وہ ضرب نشانے پر لگے گی۔
مودی کے پاس بڑی چھڑی تھی۔ ان کے پاس ابہام کا فائدہ تھا، زبردست طاقت کا خوف، اور ابھرتی ہوئی بھارت کی عالمی شبیہہ۔ مگر انہوں نے اس کا استعمال کیا — نہ کہ درست ضرب لگانے کے لیے، بلکہ محض بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لیے۔ اور اسی میں انہوں نے اس طاقت کی کھوکھلاپن ظاہر کر دیا۔
اب دشمن کو چھڑی سے خوف نہیں۔
اب دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ بھارتی فضائی قوت کو روکا جا سکتا ہے۔
اور پاکستان — جسے مودی کی حکمتِ عملی مٹانے کے درپے تھی — کمزور ہو کر نہیں، بلکہ بیدار ہو کر ابھرا ہے۔
یہ صرف ایک تزویراتی ناکامی نہیں، بلکہ تاریخ میں یاد رکھا جانے والا لمحہ ہے: جب بھارت نے شکست کے ذریعے نہیں، بلکہ حد سے تجاوز کر کے اپنی برتری کھو دی۔
یہ محض ایک جھڑپ نہ تھی۔ یہ طاقت اور تاثر کا نقشہ دوبارہ کھینچنے کی کوشش تھی۔ مگر بھارت کی حکمتِ عملی جس کا مقصد غلبہ حاصل کرنا تھا — اپنی حدود ظاہر کرنے پر ختم ہوئی۔ بھارتی فضائیہ، جسے طویل عرصے سے برتر سمجھا جاتا تھا، آزمائی گئی — اور روک دی گئی۔ چھڑی پاکستان کو توڑنے کے لیے گھمائی گئی۔ لیکن وہ ہوا میں ہی ٹوٹ گئی۔
مودی کی گہری چال واضح تھی:
1. پاکستان کو اشتعال دلا کر جوابی ایٹمی کارروائی پر مجبور کرنا،
2. اسے عالمی سطح پر تنہائی میں ڈالنا،
3. اور پاکستان کی ساکھ کو تباہ کرنا۔
مگر پاکستان نے پلک نہ جھپکی۔
اس نے تحمل، درستگی، اور حکمتِ عملی کے ساتھ کھڑے ہو کر جواب دیا۔
چینی ISR، ریڈار، اور میزائل نیٹ ورک کی پشت پناہی کے ساتھ، پاکستان نے جو ممکنہ شکست ہو سکتی تھی، اسے خطے کے توازن میں بدل دیا۔
1. رافیل طیاروں کا افسانہ مٹ گیا۔
2. INS وکرانت خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا۔
3. اور نفسیاتی برتری — جو بھارت کا سب سے بڑا ہتھیار تھا — کھو دی گئی۔
یہ طاقت کو آزمانے کا عمل تھا۔ اور اس میں بھارت نے اپنا ہاتھ ظاہر کر دیا اور برتری کا طلسم توڑ دیا۔
بھارتی فضائیہ، جو کبھی ناقابلِ تسخیر سمجھی جاتی تھی، اب جانچی، ناپی، اور روک لی گئی ہے۔
روایتی برتری کا پورا فریم ورک — جسے ایسے ہی دن کے لیے تیار کیا گیا تھا — عوام کے سامنے بکھر گیا۔
1. اب افسانہ چکنا چور ہو چکا ہے۔
2. نفسیاتی برتری ختم ہو چکی ہے۔
3. اور “اکھنڈ بھارت” کا خواب — جو قوم پرستانہ نعرے کے ساتھ پیش کیا گیا تھا — پانی میں بہہ گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ سے ملاقات: آخری حد سے حکمت کی طرف
گزشتہ رات یاد رکھی جائے گی ان واقعات کے لیے جو نہیں ہوئے —
اسلام آباد کا “سقوط”، کراچی پورٹ کی “تباہی”، جنرل عاصم منیر کی “گرفتاری” —
یہ سب بھارتی میڈیا کی آخری کوششیں تھیں فتح کا تاثر پیدا کرنے کی، ایک نفسیاتی فتح کا ڈرامہ رچانے کی۔
مگر وہ ناکام ہو گئے۔ اور اسی ناکامی میں ایک نئی حقیقت نے جنم لیا۔
آج مودی جب شمال کی طرف دیکھتے ہیں تو ایک بحال شدہ اتحاد کو دیکھتے ہیں — پاکستان اور چین، پہلے سے کہیں زیادہ قریب۔
یہ پاکستان کی تاریخ سے ملاقات تھی: ایک وجودی لمحہ، جسے وقار اور درستگی سے نبھایا گیا۔
جنہیں بھارت “لوہے کی اڑتی ہوئی نلکیاں” کہہ کر مذاق اڑاتا تھا، انہوں نے باز رکھنے کی نئی تعریف پیش کی۔
پاکستان نے جدید جنوبی ایشیائی تاریخ کی سب سے مربوط دفاعی حکمتِ عملی اور حقیقی وقت میں ہم آہنگی کا مظاہرہ پیش کیا۔
اور اب، جب بھارت کا غرور دب چکا ہے، ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے — غرور سے کم، عاجزی سے زیادہ۔
عرب دنیا اب مودی کو وہی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی۔
اور نہ ہی ٹرمپ یا مغرب۔
کیونکہ انہوں نے حقیقت دیکھ لی ہے:
1. پاکستان قراقرم، سلک روڈ، واہگہ، خیبر، اور طورخم کے سنگم پر کھڑا ہے،
2. اس کے پاس صرف جغرافیہ نہیں، بلکہ 2.8 ارب افراد کے خطے کے استحکام کی کنجی بھی ہے،
3. تزویراتی نقشہ بدل چکا ہے —
اور دنیا کی نظر کا زاویہ بھی۔
تزویراتی پیش گوئی: مودی کی غلطی اور نئے طاقت کے توازن کا آغاز
جو طاقت کے مظاہرے کے طور پر شروع ہوا، وہ اب تزویراتی غلطی کی کتابی مثال بن چکا ہے۔
مودی کا مقصد واضح تھا:
1. برتری جتانا، پاکستان کو تیزی سے نیچا دکھانا، اور بھارت کی علاقائی برتری کو مستحکم کرنا۔
یہ منصوبہ بھارتی فضائیہ کی برتری، رافیل طیارے، INS وکرانت، سیٹلائٹ انٹیلیجنس، اور سیاسی غرور پر مبنی تھا۔
2. مودی کے نزدیک جنگ 99% مکمل تھی — صرف ایک آخری وار باقی تھا۔
مگر یہ فریب اس لمحے ٹوٹا، جب بھارتی طیارے متنازع فضائی حدود میں داخل ہوئے۔
فضائی برتری کی شکست طاقت سے نہیں، بلکہ کچھ زیادہ پیچیدہ ذریعے سے ہوئی:
پاکستان اور چین کے درمیان گہری، حقیقی وقت کی ہم آہنگی۔
پاکستانی فضائیہ کے پاس صرف ریڈار نہیں، خلا میں آنکھیں بھی تھیں —
چینی ISR سیٹلائٹس، Saab Erieye AWACS، اور PL-15 طویل فاصلے والا فضائی میزائل —
ایسا جال بن چکا تھا جس میں بھارتی طیارے پوشیدہ نہ رہ سکے۔
بھارت نے جیسے ہی اپنی فضائی قوت کو “ٹائیگر” فارورڈ بیسز پر مرکوز کیا — پاکستان دیکھ رہا تھا۔
PAD سسٹمز خاموشی سے نگرانی کر رہے تھے۔
اور جیسے ہی IAF طیاروں نے اڑان بھری، صرف وہی نشانہ بنے جنہوں نے ہتھیار فائر کیے۔
رافیل پائلٹس؟ متعدد رپورٹس کے مطابق، انہوں نے میزائل کو آتے ہوئے کبھی دیکھا ہی نہیں۔
کیونکہ جب PL-15 کو AWACS کی رہنمائی حاصل ہو، تو وہ نظر نہ آنے والا بھوت بن جاتا ہے جو مار دیتا ہے، دیکھے جانے سے پہلے۔
یہ کوئی فضائی جنگ نہ تھی۔ یہ نیٹ ورکڈ وارفیئر کی گھات تھی۔
سمندر میں بھی یہ فریب بکھر گیا۔
INS وکرانت، بھارت کا فلیگ شپ کیریئر، ایک پاکستانی P-3C Orion کی ریڈار لاکنگ کے بعد پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا —
ایک حکمت بھری توہین، جو میزائل سے نہیں، بلکہ ریڈار اور برداشت سے دی گئی۔
یہ ایک نئی بازدار حقیقت کا اشارہ تھا:
بھارت کو دیکھا جا سکتا ہے۔
پیچھا کیا جا سکتا ہے۔
اور روکا جا سکتا ہے۔
مودی کا خواب — “پاکستان کو مٹا دینا”،
اسے تقسیم کرنا، اس کے دریا خشک کرنا، اس کے شہر تباہ کرنا —
اب ایک دور کا خواب بن چکا ہے۔
عالمی اثرات
پاکستان، جسے طویل عرصے سے “ناکام ریاست” کے طور پر پیش کیا جاتا رہا —
اب ایک قابلِ اعتماد توازن کے طور پر ابھرا ہے۔
نہ کوئی معاشی دیو، نہ دوسرا درجے کا کھلاڑی —
بلکہ ایک ایسا ملک جس نے بھارتی فضائیہ کو روکا،
اور ثابت کیا کہ دفاع صرف تعداد سے نہیں، بلکہ درستگی سے ہوتا ہے۔
یہ صرف ایک حکمتِ عملی کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی دھچکا ہے۔
اسلامی دنیا، جو پہلے تذبذب میں تھی،
اب نئے زاویے سے دیکھ رہی ہے —
کیونکہ جدید جنگ میں عزت نعروں سے نہیں، بلکہ بازدار قوت سے حاصل کی جاتی ہے۔
بھارتی میڈیا، جس نے ایک رات قوم پرستانہ جوش میں اسلام آباد کے “فتح” کا ڈرامہ رچایا،
صبح کو شرمندگی اور خاموشی کے ساتھ بیدار ہوا۔
زی نیوز سے ٹائمز ناؤ تک، خواب ٹوٹ گیا۔
انفلوئنسرز نے معافی مانگی۔
ٹوئٹس ڈیلیٹ ہو گئے۔
بھارت کے کئی بزرگ تجزیہ کاروں نے احتساب کا مطالبہ کیا۔
میری پیش گوئی:
1. مودی پیچھے ہٹیں گے۔
اس لیے نہیں کہ وہ چاہتے ہیں،
بلکہ اس لیے کہ اب ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔
2. جو ایک “سرجیکل اسٹرائیک” سمجھا جا رہا تھا،
وہ اب تکنیکی، سیاسی، اور نظریاتی شکست بن چکا ہے۔
3. بھارت-پاکستان تنازع اب یکطرفہ نہیں رہا،
بلکہ یہ خطے کی طاقت کا توازن بن چکا ہے،
جو ڈرامے سے نہیں، بلکہ پاکستان-چین کے فوجی اتحاد کی گہرائی سے تشکیل پایا ہے۔
یہ صرف مودی کے لیے دھچکا نہیں —
یہ پاکستان کے لیے ایک اسٹریٹیجک تحفہ تھا —
اسی شخص کے ہاتھوں، جو اس کی شکست چاہتا تھا۔
اس نے اس کا راستہ ہموار کیا —
اور اب وہی حقیقت بن گئی ہے۔
پردہ ہٹ گیا ہے۔
توازن بدل گیا ہے۔
افسانہ دم توڑ چکا ہے۔
مودی — وہ شخص جسے “نئے بھارت” کا معمار کہا جاتا تھا،
جو دنیا بھر میں زور سے سنا جاتا تھا —
اب ایک ابھرتے ہوئے توازن کے سائے میں آ چکا ہے۔
پاکستان، جسے کبھی ایک ناکام ریاست سمجھا جاتا تھا —
اب چین کے ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کی درپردہ تزویراتی حمایت حاصل ہے —
جو کسی بھی مستقبل کی جھڑپ میں پاکستان کی علاقائی سالمیت کی ضمانت بنے گا۔
طاقت کا توازن مستقل طور پر بدل چکا ہے۔
“اکھنڈ بھارت” کا خواب ختم ہو گیا ہے۔
وہ جاہلانا رویہ چلا گیا ہے۔
اب وقت ہے کہ بھارت کے عوام وہ سچ تسلیم کریں،
جو ان کا میڈیا نہیں بولتا:
پاکستان اب وہ پاکستان نہیں رہا،
جسے ماضی میں نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔
آج کی پاکستانی فضائیہ کا وقار، درستگی، اور اعتماد —
یہ ناکام ریاست کا رویہ نہیں۔
یہ ایک ایسی قوم کی تصویر ہے جس نے مورچہ سنبھالا —
اور اس کی لکیر دوبارہ کھینچ دی۔
آئیے امن کو فروغ دیں —
ایک دوسرے کی مہارت اور وقار کو تسلیم کر کے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے عزت، نرمی، اور فہم کے ساتھ پیش آئیں —
غرور یا لاعلمی کے ساتھ نہیں۔ بشکریہ ظفر اسلام
امن پر امن زندگی کے لیے
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
۲
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدان کشت و خوں ہی نہیں
حاصل زندگی خرد بھی ہے
حاصل زندگی جنوں ہی نہیں
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ وحشت سے بربریت سے
امن تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ مرگ آفریں سیاست سے
امن انسان کی بقا کے لیے
جنگ افلاس اور غلامی سے
امن بہتر نظام کی خاطر
جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن بے بس عوام کی خاطر
جنگ سرمائے کے تسلط سے
امن جمہور کی خوشی کے لیے
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن پر امن زندگی کے لیے
ساحر لدھیانوی
11 May 2025
**پاکستان اور دنیا کی تیزی سے بدلتی صورتحال**
**پاکستان اور دنیا کی تیزی سے بدلتی صورتحال**
خدارا ہوش کے ناخن لو...!
دنیا کتنی تیزی سے بدل رہی ہے اور پاکستان اور اس کے کنٹرولرز کس دنیا میں رہتے ہیں؟
دیکھ کر، سن کر افسوس ہی ہوتا ہے۔
آج بلوچستان کے حالات دیکھ لیں، پختونخوا کے حالات دیکھ لیں یا پنجاب کے... ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔ کہیں بھی سکون اور تسلی کی کوئی خبر نہیں ملتی۔
کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید اللہ ہم سے ناراض ہے... یا پھر ایسا ہے؟
لیکن دوسری طرف اللہ کا فرمان ہے، جو علماء کرام فرماتے ہیں کہ جب اللہ کسی سے خوش ہوتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔
اللہ جس سے محبت کرتا ہے اسے مشکل امتحان سے گزارتا ہے۔
اب آپ لوگوں کو اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ اللہ آپ سے محبت کرتا ہے، اسی لیے آپ سب پر یہ کڑا امتحان ہے... یا پھر اللہ ناراض ہے، اس لیے ہم سب پر یہ مشکل وقت آیا ہوا ہے؟
میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں:
**"اللہ ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔"**
ہم صرف کچھ وقت کے لیے اس دنیا میں ہیں۔ مشکل ہو یا آسانی، یہ سب ختم ہو جانے والا ہے۔
اللہ جس حال میں بھی رکھے، صبر کے ساتھ اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنا کام کرتے چلے جاؤ۔ اس طرح کرتے کرتے ایک دن آپ کا وسیع اور اچھا وقت آ جائے گا۔
باقی آپ کے پیچھے آپ کی محنت کے اثرات باقی رہیں گے، جو آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں گے۔ یہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔
میرے پاس صرف صبر، محنت اور علم حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ اسی علم کی روشنی میں اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنا ہے۔
خالی باتوں سے کچھ نہیں بدلنے والا۔
صرف اللہ کے لیے ایک ہو جاؤ۔
تفرقوں سے باہر نکل آؤ۔
ایک مشن کے لیے اکٹھا ہو جاؤ...
اور وہ مشن ہے محنت، ایمان، اسلام اور انسانیت کی بھلائی کے لیے۔
انسانوں کی آسانی کے لیے۔
**یا اللہ! میری اس نادان خواہش کو قبولیت اور کامیابی عطا فرما۔**
آمین ثم آمین۔
**- محمد عرفان اے صدیقی**
#gbwtrade #PakistanZindabad #IslamicCommunity #UNITYOFISLAM
http://youtube.com/post/UgkxdogGuyjIKB7KRAVzdsO_uVSd9xmQQP-7?si=mOuKE80VxzJ3mLSp
"دہشت گردی پاکستان کے معصوم لوگوں کو قتل کر رہی ہے"
"دہشت گردی پاکستان کے معصوم لوگوں کو قتل کر رہی ہے"
بالکل میں اس بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ "دہشت گردی پاکستان کے معصوم لوگوں کو قتل کر رہی ہے"، لیکن ہماری قوم کو اب گہرائی سے پاکستان کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کی صورتحال گورننس اور سیاسی استحکام کے لحاظ سے انتہائی خراب ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اہم عہدوں پر موجود افراد پاکستان کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہیں، اور اس میں کچھ اسٹیبلشمنٹ کے عناصر بھی شامل ہیں۔
ذرا سوچیں، کیا پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایک بھی آرمی چیف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان میں رہتا ہے؟ نہیں! کیوں؟ یہی حال ججز اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کا ہے۔ وہ پاکستان میں رہنا پسند نہیں کرتے، انہیں صرف یہاں حکومت کرنا آتا ہے، یہاں سے لوٹنا آتا ہے، اور پاکستان کو کھانے کے لیے آتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پاکستان میں نہیں رہیں گے تو اس کا مطلب آپ جانتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان رہنے کے قابل نہیں ہے۔
اگر پاکستان کے قانون میں شروع دن سے یہ اصول ہوتا کہ کوئی بھی پاکستانی کسی بھی بہانے ملک سے باہر نہیں جا سکتا اور تمام اعلیٰ عہدے دار ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پاکستان میں ہی رہتے، تو کیا آج پاکستان کی یہ حالت ہوتی؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ اگر مجھے معلوم ہو کہ مجھے یہیں رہنا ہے تو میری مجبوری ہو گی کہ میں اس جگہ کو صاف اور محفوظ رکھوں۔ لیکن اگر مجھے یقین ہو کہ مجھے یہاں نہیں رہنا تو پھر مجھے کوئی پروا نہیں کہ یہاں گندگی ہے یا کچھ اور، مجھے تو صرف اپنی جان بچانی ہے۔
آج ہمیں سب کو مل کر صرف اور صرف پاکستان کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ آج کا نوجوان پاکستان کے ماحول سے مایوس ہے، یہاں ہونے والی ناانصافیوں سے مایوس ہے۔ پاکستان صرف عمران خان کا نہیں ہے، یہ صرف عمران خان کا پاکستان نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ اس لیے ہمیں سب کو مل کر اب وقت آ گیا ہے کہ جو زیادتیاں پاکستان کے ساتھ ہو رہی ہیں ان کا حساب مانگیں، اور اگر یہ حساب ہمیں نہ ملے تو اس کرپشن مافیا سے چھین لیں جو پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھا رہا ہے۔
اب تبدیلی کی ضرورت ہے، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
**- محمد عرفان اے صدیقی**
#PakistanZindabad #gbwtrade #PTIchairmanIMRANKHAN
جس طرح ایک کیک کو پاکستان کے جھنڈے کی شکل میں کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے،
جس طرح ایک کیک کو پاکستان کے جھنڈے کی شکل میں کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے،
آج پاکستان کو بھی اسی طرح ٹکڑوں میں کاٹا جا رہا ہے۔ خدا کے واسطے! پاکستان کی خوشیاں ضرور منائیں، لیکن اس کے ساتھ اس کی فکر بھی کریں کہ پاکستان کو ان حالات سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔ یہ کسی اور کا نہیں، ہم سب کا کام ہے، کیونکہ آج آپ جس مقام پر ہیں، یہ صرف اتفاق کی بات نہیں، یہ اتحاد، یکجہتی، اور ایک آواز بلند کرنے کی بات ہے۔
ہمیں ایک ایسی آواز اٹھانی ہوگی جو ہر پاکستانی کو حوصلہ دے کہ سب خود غرض نہیں ہیں، آج بھی پاکستان کے بارے میں سوچنے والے لوگ موجود ہیں۔ پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے جس اتحاد کی ضرورت ہے، وہ ہم سب پاکستانیوں کے اندر موجود ہے۔ ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہیے — پاکستان! اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں، اگر پاکستان نہیں تو ہماری کوئی پہچان نہیں۔
پاکستان اگر وجود میں آیا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے، کوئی اتفاق نہیں۔ ہر چیز کے پیچھے ایک مقصد ہوتا ہے، اور اس مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس لیے میں یہی کہوں گا
:
**پاکستان زندہ باد!**
**پاکستان اور کوریا کی یکجہتی زندہ باد!** **- محمد عرفان اے صدیقی**
#PakistanZindabad #gbwtrade #PTIchairmanIMRANKHAN
"مستحکم حکومتی تبدیلی کا نظام" (Stable Governance Framework)
"مستحکم حکومتی تبدیلی کا نظام" (Stable Governance Framework)
آپ کے خیالات بہت اہم اور دور رس نتائج والے ہیں۔ آپ نے بالکل درست کہا کہ جب ایک نیا صدر یا حکومت آتی ہے اور پچھلی حکومت کے تمام نظام کو ختم کرکے نئے طریقے سے سب کچھ شروع کرتی ہے، تو اس سے نہ صرف ملک کے اندر نقصان ہوتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے برے اثرات پڑتے ہیں۔
آپ کی باتوں کی روشنی میں ایک "مستحکم حکومتی تبدیلی کا نظام" (Stable Governance Framework) اردو میں اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے:
دنیا بھر کے لیے ایک نیا اور مستحکم صدارتی نظام کی تجویز
1. پالیسی تسلسل کا قانون
ہر ملک میں ایک ایسا قانون بنایا جائے جو اہم ملکی اور بین الاقوامی پالیسیوں کو اچانک تبدیلی سے بچائے، جیسے کہ:
تجارت،
معیشت،
ماحولیات،
سٹریٹجک پراجیکٹس۔
یہ پالیسیز صرف اس صورت میں بدلی جا سکیں جب:
پارلیمنٹ یا عوامی مشورے سے منظوری لی جائے۔
معیشت پر اثرات کا تجزیہ کیا جائے۔
کوئی واضح منصوبہ اور وقت کا تعین ہو۔
2. تبدیلی نہیں، بہتری کا اصول
ہر نئی حکومت کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ موجودہ نظام کو توڑے بغیر بہتری کرے۔
مکمل تبدیلی صرف اس صورت میں ہو جب پالیمنٹ کی دو تہائی اکثریت اس کی منظوری دے۔
3. غیر سیاسی عبوری نگران بورڈ
ایک ماہرین پر مشتمل آزاد بورڈ بنایا جائے جو ہر نئی حکومت کی تبدیلی کے وقت پالیسیوں کا جائزہ لے اور اہم قومی اور عالمی مفاد میں تسلسل برقرار رکھے۔
4. عالمی معاہدہ برائے صدارتی معیشتی ذمے داری
تمام ممالک ایک معاہدہ کریں جیسے "پیرس ماحولیاتی معاہدہ" ہے۔
کوئی بھی ملک اچانک ٹیکس یا تجارتی محصولات (custom tariff) تبدیل نہ کرے۔
ایسی تبدیلی کے لیے کم از کم 6 تا 12 ماہ کی پیشگی اطلاع لازمی ہو۔
متاثرہ ممالک سے پہلے مشورہ کیا جائے۔
5. انسانی بہبود اور عالمی استحکام کو اولین ترجیح
ہر صدر یا وزیرِاعظم کو اپنی پالیسیز انسانی بھلائی اور عالمی معیشت کے ساتھ ہم آہنگ کرنی چاہئیں۔
ایسی ذاتی یا جماعتی مفاد والی پالیسیز پر پابندی ہو جو صرف اپنی پارٹی کے فائدے کے لیے بنائی جائیں۔
یہ نظام پوری دنیا میں معاشی اور سیاسی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے، اور وقت، وسائل، اور انسانی مسائل کے ضیاع کو روک سکتا ہے۔
"کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب ایک نیا صدر آتا ہے اور پچھلی حکومت کے تمام نظام بدل دیتا ہے، تو اس سے کتنا نقصان ہوتا ہے؟
صرف پارٹی فائدے کے لیے، قوم، معیشت اور عوام کو نقصان؟
یہ وقت ہے، تبدیلی کا۔"
"دنیا کو اب ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔
ایسا نظام جو صدارتی تبدیلی کو نقصان نہیں بننے دے، بلکہ ایک تسلسل میں لے کر چلے۔
اس کے لیے ہمیں 5 اہم اصول اپنانے ہوں گے:"
1. پالیسی تسلسل کا قانون
"ایسے قوانین ہوں جو بنیادی پالیسیز کو بغیر مشورہ اور تجزیے کے ختم نہ ہونے دیں۔"
2. مکمل توڑ پھوڑ بند – بہتری کا راستہ
"اگر نظام میں کچھ کمزوریاں ہیں، تو اُنہیں ٹھیک کریں۔
مگر پورے نظام کو ختم کرنا دانشمندی نہیں۔"
3. غیر سیاسی نگران بورڈ
"ایک آزاد بورڈ جو ہر تبدیلی کا جائزہ لے اور فیصلہ کرے کہ کونسی چیز برقرار رہنی چاہیے۔"
4. عالمی معاہدہ برائے معاشی استحکام
"امریکہ، کوریا، چین یا کوئی بھی ملک —
جب اچانک trade tax یا law بدلے گا، تو پوری دنیا کو نقصان ہوگا۔
ایسی تبدیلیوں سے پہلے 6 ماہ کی پیشگی اطلاع ہونی چاہیے۔"
5. انسانیت، سیاست سے پہلے
"قانون بناؤ جو انسانوں کے لیے ہوں، نہ کہ پارٹی کے لیے۔
بڑی سوچ، بڑے فیصلے — مگر سب کے فائدے کے لیے!"
"یہ وقت ہے کہ دنیا ایک نیا قدم اٹھائے۔
ایسا قدم جو پائیدار ہو، انسان دوست ہو، اور ترقی کو جاری رکھے۔
آئیں، ہم سب اس تبدیلی کا حصہ بنیں!"
دنیا کے جھنڈے، یونائیٹڈ نیشن، ہاتھوں میں ہاتھ، امن و ترقی کے مناظر.
#GBWTRADE #StableGovernanceFramework
http://youtube.com/post/UgkxsWspRXpV9iECWWIUB4RJiBIlb8HQq8gT?si=t24Mj_HMaahaytWU
"پاکستان کی اصل طاقت – عوام"
"پاکستان کی اصل طاقت – عوام"
میرے عزیز پاکستانیوں!
آج اگر پاکستان نے خود کو درست سمت میں نہ سنبھالا،
تو وہ دن دور نہیں،
جب خالصتان کے حامی بھی پنجاب کے لیے وہی راستہ اپنائیں گے،
جس کی طرف آج کے حالات اشارہ دے رہے ہیں۔
محض افسوس اور جذبات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا!
ہمیں خود کو ایک درست، باوقار اور عملی موقف پر لانا ہوگا۔
یہی ایک راستہ ہے اپنے وجود، اپنے وطن، اپنے وقار کو باقی رکھنے کا!
اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھے،
تو سب سے پہلے ہمیں خود کو اندر سے مضبوط کرنا ہوگا۔
اور یہ تب ہوگا،
جب پاکستان اپنے عوام کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
یاد رکھو!
فوج کی طاقت — عوام کے بغیر ممکن نہیں!
سیاستدانوں کی حیثیت — عوام کے بغیر کچھ بھی نہیں!
جب عوام ہی اصل طاقت ہیں،
تو عوام کو نظرانداز کیوں کیا جا رہا ہے؟
اگر پاکستان کو ایک حقیقی طاقتور ملک بنانا ہے،
تو عوام کی مرضی کے مطابق،
عوامی انصاف، عوامی قانون، اور عوامی سوچ کے مطابق نظام کو چلانا ہوگا۔
ہمیں ایک ایسا نظام چاہیے
جو "عوامی مارشل لاء" کی بنیاد پر ہو —
جہاں طاقت عوام کے ہاتھ میں ہو،
اور فیصلے عوام کی بھلائی کے لیے ہوں۔
یہی سچ ہے… یہی وقت کی ضرورت ہے!
پاکستان زندہ باد!
ایم. عرفان علی
#Pakistan #pakistanzindabad #پاکستان# پاکستان زندہ باد
http://youtube.com/post/UgkxRIlmnlAmKtf_y8gtNJdmj5Qc6cdOAGba?si=x6ypiMiJcgR4Ve42
We Love India & Indians People's But We Hate Modi & Modi Ideology.
We Love India & Indians People's
But We Hate Modi & Modi Ideology.
#india #Pakistan #indiapakistandosti #pakindodosti
http://youtube.com/post/Ugkx6vqTXTtUZLEF_VyDiEbqvs5zq7JnfJ3d?si=9gr0g28Qi8mWBxTm
Release Imran Kahn by Real & Right Law of Pakistan
Release Imran Kahn by Real & Right Law of Pakistan
@ImranKhan
#imrankhan #pti #imrankhan #ptiimrankhan #Pakistanlaw
http://youtube.com/post/UgkxwRI_fx5R-HVQ0tbe9AQZIkflIHdFr32x?si=r0XrfqPeGKaQDMW2
Subscribe to:
Posts (Atom)
تفصیل (تفصیلی نکات): آزادی اور آج کا پاکستان - کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟
آ زادی اور آج کا پاکستان - کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟ اگست14 کیا صرف آزادی کا دن ہے یا یہ دکھ بھری قربانیوں اور افسوسنا...
-
آ زادی اور آج کا پاکستان - کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟ اگست14 کیا صرف آزادی کا دن ہے یا یہ دکھ بھری قربانیوں اور افسوسنا...
-
We are a supplier of this hard PVC granules from South Korea. Contact Us +821066791588 gwtgmarket@gmail.com http://www.gbworldtradecol...