آزادی اور آج کا پاکستان - کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟
اگست14 کیا صرف آزادی کا دن ہے یا یہ دکھ بھری قربانیوں اور افسوسناک واقعات کی یاد کا دن بھی ہے؟
کیا وہ لوگ جو پاکستان کی سرزمین پر پہلے سے رہتے تھے اور وہ جو ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے،
دونوں کی خوشیاں اور دکھ برابر تھے؟
کیا جو لوگ پاکستان میں ہی رہ گئے اور جنہیں ہجرت نہ کرنی پڑی، وہ ہجرت کرنے والوں کے غم کو محسوس کر سکتے ہیں؟
کیا کبھی کسی نے کسی موقع پر ان مہاجرین کی قربانیوں پر دو لفظ ہمدردی یا حوصلے کے کہے؟
چاہے اپنوں کا خون بہے یا پرایوں کا، خون تو خون ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ انسانیت کا قتلِ عام دونوں طرف ہوا۔ یہ وہ درد ہے جسے صرف وہی جانتا ہے جو اس سے گزرا ہو، باقی لوگ چاہیں بھی تو اس احساس کی گہرائی کو نہیں سمجھ سکتے۔
یہ احساس اللہ تعالیٰ ہر کسی کو نہیں دیتا۔
میری دعا ہے کہ اللہ سب انسانوں کو اپنی اپنی جگہ پر سکون، محبت اور چارہ گری کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین۔
اسی طرح میری فیملی بھی ہریانہ، ضلع کرنال کے کچھ علاقے، مثلاً کھارو کھیڑا اور رتن گڑھ سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھی۔ جانتے ہیں یہ سب لوگ کیوں آئے تھے؟
صرف اس لیے کہ پاکستان بن گیا تھا—
ایسا پاکستان جس میں صرف اور صرف انسانیت، مسلمانیّت اور بھائی چارے کا پرچار ہو گا۔
"چھور اُچا کا چوہدری تے لوچی رن پردان"
یہ سب لوگ صرف اس لیے پاکستان آئے تھے کہ پاکستان وہ ملک ہوگا جہاں صرف انسانیت، مسلمانیّت اور بھائی چارے کا پرچار ہوگا۔
جہاں ہم سب بھائیوں کی طرح ایک قوم کی طرح، ایک آسمان کے نیچے، ایک خالقِ حقیقی کا نام لے کر حقیقی آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔ ایسی دھرتی جہاں نہ کوئی خوف ہوگا، نہ پریشانی۔ اس زمین پر نہ کسی کے حق تلفی کا اندیشہ ہوگا،
نہ کوئی کسی کو ناحق تنگ کر سکے گا۔
یہ زمین کا ٹکڑا ہم سب کے لیے امن کا گہوارہ بنے گا، اسی لیے اس کا نام پاکستان رکھا گیا تھا۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا ہمارے بزرگوں نے اپنا خون آج کے پاکستان کے لیے دیا تھا؟
کیا آج کا پاکستان وہی پاکستان ہے جو قائداعظم کا خواب تھا؟
کیا آج کے حالات، آج کا ماحول، وہی منزل ہے جس کے لیے ہمارے بڑوں نے اپنی زندگیاں قربان کیں اور اپنا خون دیا؟
آج میں اپنے اُن بزرگوں کو کیا جواب دوں گا؟
کیا ان کی دی گئی قربانیوں کا یہی مذاق اڑایا جا رہا ہے؟
یہی آج کا پاکستان ہے۔
آج اس ملک میں ایک مشہور پنجابی کہاوت حرف بہ حرف سچ ہو رہی ہے:
اور آج یہی حال ہے۔
آپ کس ادارے کی بات کرتے ہیں؟
یہاں کون سا ادارہ انصاف دیتا ہے؟
یہاں تو حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے اداروں کے دروازے پر کھڑا ایک چھوٹا سا دربان بھی اُس وقت تک دروازہ نہیں کھولتا جب تک کچھ مل نہ جائے۔
انصاف اور قانون کے محافظ خود بددیانتی اور لوٹ مار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تو پھر عوام کس پر بھروسہ کرے؟
جس ملک کے محافظ ادارے خود کو بہت مضبوط ظاہر کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی حیثیت اتنی ہے کہ جیسے ہی ان کا سربراہ اپنی نوکری سے فارغ ہوتا ہے، وہ دوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر سانس لیتا ہے۔
اسی لیے وہ یہاں رہنے کے بجائے بھاگ جانا بہتر سمجھتا ہے۔
سوال یہ ہے: آخر کیوں؟
کیا کبھی آپ نے یہ سوچنے کا موقع پایا ہے کہ آخر بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ کیوں ہمیشہ ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں؟
وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس ملک کے ساتھ کیا کچھ کر دیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ نظام زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں۔ اسی لیے وہ بھاگنے کو ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں۔
لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ نظام انسانوں کا بنایا ہوا نہیں ہے،
اس کائنات کو چلانے والا صرف اور صرف ایک ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف اللہ کی رحمت کا انتظار کرنا چاہیے؟
نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔
اسلام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جب ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے تب ہی ہم اللہ کی رحمت کے اہل بن سکیں گے۔
بغیر محنت کے سب کچھ صرف جذباتی باتیں ہیں، وقتی شغل ہیں، اور وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
دنیا کی ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا کلچر اور اپنی شناخت منائے۔ ان کے طریقے الگ الگ ہوتے ہیں۔
لیکن اصل فرق یہ ہے کہ وہ اپنی محنت اور قربانی کے ساتھ اپنے جشن کو بامقصد بناتے ہیں۔
اگر ہم نے بھی اپنی قربانیوں اور محنت کو زندہ نہ کیا، تو ہمارے تہوار اور جشن صرف رسم بن کر رہ جائیں گے،
مقصد کھو بیٹھیں گے۔
کیا قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک، اور اس کے باسی عوام کے لیے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی بدترین حالت کو نظر انداز کرکے، حقیقت سے آنکھیں چرا کر، محض شُغل میلہ، ڈانس، لُڈی اور نمائشی جشن منائیں؟
کیا کوئی سنجیدہ اور باعزت قوم ایسا کر سکتی ہے؟
ہرگز نہیں۔
یہ سب کچھ دراصل ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں۔
اگر کوئی دلیل ہے تو سامنے لائیے—کیا اس تماشے کا کوئی منطقی جواز دیا جا سکتا ہے؟
کیا دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں؟
ہمارے اعمال چیخ چیخ کر کہتے ہیں: نہیں! ہم زندہ قوم نہیں بلکہ ایک بے حس، مردہ قوم ہیں۔ اور صرف مردہ نہیں، بلکہ ایسے مردہ سے بھی بدتر جو سرد خانے میں پڑا ہو۔
ایسی قوم جسے نہ اپنے حق کا شعور ہے، نہ قومیت کا احساس ہے، نہ دکھ کا درد ہے، نہ مستقبل کی فکر ہے۔
یہ دراصل ایک ایسا ہجوم ہے جو بس چل رہا ہے اندھوں کی طرح—بغیر کسی منزل کے، بغیر کسی مقصد کے۔
جہاں ایک دوسرے کو محض جھوٹی تسلیاں اور دلاسے دے کر آگے بڑھا جا رہا ہے: "چلتے رہو، چلتے رہو۔"
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک؟
کیا یہ اندھا سفر ہی ہمارا مقدر ہے؟
خدا کی قسم! ہم لوگ دیمک کی طرح گہرائیوں میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔
اگر آج بھی ہم سب اپنی حقیقت سے نظریں چرا کر اسی خود فریبی میں زندہ رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہم بھی ایک عبرت ناک تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ وہ وقت جب دنیا ہم پر ہنسے گی، اور ہم یہ سمجھتے رہیں گے کہ شاید وہ ہمارے ساتھ خوشی منا رہی ہے، مگر حقیقت میں وہ ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔
ایک سادہ سی مثال دیکھ لیجیے:
آپ کبھی کسی کے گھر جائیں، اندر داخل ہوتے ہی آپ کو صفائی، ترتیب اور خوبصورت نشست و برخاست دکھائی دے گی۔
مگر جیسے ہی اُس گھر سے نکل کر اُس گلی میں قدم رکھیں گے تو اُلٹی تصویر نظر آئے گی—گندگی، کوڑا کرکٹ، بدبو اور غلاظت۔ بازار میں جائیں تو تعفن سے بھری نالیاں اور سڑکوں پر پھیلا کچرا نظر آتا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟
یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس قوم کا معاشرتی شعور ختم ہو چکا ہے۔ معاشرہ مردہ ہو چکا ہے۔
صرف "میں" اور "میرا" باقی رہ گیا ہے:
میرا گھر، میری فیملی، میرا آرام—باقی سب بھاڑ میں جائیں۔
یہی خود غرضی، یہی بے حسی ہمیں لے ڈوبی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ:
-
ایک جیب کترا ہو یا پولیس والا،
-
ایک چھوٹا کلرک ہو یا افسر شاہی،
-
ایک سیاستدان ہو یا وزیرِاعظم،
-
ایک عام وکیل ہو یا سپریم کورٹ کا چیف،
-
یہاں تک کہ ایک سیکورٹی گارڈ ہو یا فوج کا سربراہ—
سب کے سب رشوت، سفارش، لوٹ مار، بددیانتی اور کرپشن کے دلدل میں جکڑے جا چکے ہیں۔
یعنی پورا نظام گل سڑ چکا ہے۔ اور یہ صرف اوپر والوں کا قصور نہیں، بلکہ ہر سطح پر یہی حال ہے۔
قوم کے اجتماعی شعور اور معاشرتی جڑیں کٹ چکی ہیں۔
آج پاکستان ایک بار پھر 1947 کے دہانے پر کھڑا ہے۔
اُس وقت بھی لوگوں نے ہجرت کی، قتل و غارت اور لوٹ مار ہوئی، نہ کوئی پوچھنے والا تھا نہ کوئی سننے والا۔
آج بھی حالات کچھ مختلف نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت یہ ابتداء تھی اور آج یہ انجام کی طرف بڑھتا ہوا سفر ہے۔
کیا ترقی ہوئی ہے؟
آج بھی ایک عام آدمی کو نہ اپنی رائے آزادانہ طور پر بیان کرنے کی اجازت ہے اور نہ اپنے روزگار کا حق۔
اگر زبان کھولو تو جیل مقدر ہے، اگر محنت مزدوری کرو تو ریڑھی لگانے تک کی آزادی نہیں۔
کاندھے پر سامان رکھ کر بیچنا بھی جرم ہے۔
اور اگر ملک چھوڑ کر جانا چاہو تو ویزہ نہیں دیا جاتا کیونکہ حاکموں کو فکر ہے کہ اگر سب لوگ نکل گئے تو ان کی خدمت کون کرے گا۔
کاروبار؟
اس پر بھی ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری ہے۔
اگر تم کاروبار کرو گے تو تمہیں ٹیکسوں اور پابندیوں کے ذریعے کچلا جائے گا۔
یہ حق صرف سیاستدانوں کے بچوں، فوجی اداروں یا چند مخصوص لوگوں کو ہے۔
باقی عوام کے لیے بے عزتی اور محرومی ہے۔
کبھی یہ ملک بڑے بڑے بزنس اور اداروں کے نام سے جانا جاتا تھا—سیگل، راوی، ریحان، اسٹیل مل، پی آئی اے اور نہ جانے کتنے اور۔ آج وہ سب زمین بوس ہیں۔ کیوں؟
صرف اس لیے کہ یہ ملک عوام کے لیے نہیں بلکہ چاپلوسوں، خوشامدیوں، فوجی و سیاسی ٹولوں، قانون کے ٹھیکیداروں اور جوٹھے سلامت برداروں کے لیے بچا کر رکھا گیا ہے۔ عام انسان کے لیے نہیں۔
اس میں ایک عام انسان کی صرف اتنی عزت ہے جتنی محلے میں کسی بھکاری کی ہوتی ہے۔ کیا یہ سب لوگ بے قصور ہیں؟ یقیناً نہیں۔
آپ نے شاید یہ کہاوت سنی ہوگی: "سر پر جیسا کھائے جاؤ اور نکلا جاؤ"۔ اگر نہیں سنی تو اپنے بڑوں سے پوچھ لیں۔
ہماری قوم بھی کچھ ایسی ہی ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر۔ آج ٹی وی یا سوشل میڈیا دیکھ لیں،
دو ہزار ارب روپے کی کرپشن کی کہانیاں عام ہیں۔
کاروبار بند، بجلی اور پانی کی کمی، صنعتیں بند، اور کاروبار رک چکے ہوں، تب بھی لوگ انتظار کرتے ہیں
کہ کوئی آسمانی فرشتہ آئے اور سب کچھ ٹھیک کرے۔ لیکن کیوں؟
آسمان کو اس کی کیا ضرورت ہے؟
اللہ نے بار بار صاف صاف کہہ دیا تھا: محنت کرو، اپنی کوشش کرو، اپنی تقدیر پر چھوڑ دو، ورنہ کوئی امید مت رکھو۔
اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی قوم اپنے دیے گئے کام کرے گی تو اس کی مدد ہوگی، اور اگر نہیں کرے گی تو دوسری قوم کو لا کر اسے بدل دیا جائے گا۔
پتا نہیں یہ سب آج کا مولانا حضرات سمجھ پائیں گے یا نہیں،
لیکن وہ بھی تو بہت مصروف ہیں۔ ان تمام عوامل کے ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ میں آپ کو یہ سب یہاں بتا سکتا ہوں۔
اگر آج کا امام واقعی امام بننے کے قابل ہوتا تو یہ حالت یہاں نہ ہوتی۔ آپ پوچھیں گے، وہ کیسا ہے؟
بالکل ویسا ہی جیسے ہمارا نبی ﷺ تھا، جو وقت کی حکومت کے ہاتھ میں نہ آیا لیکن اصول اور تعلیمات کا علم کسی کے ہاتھ نہ جانے دیا۔
آج کے مولانا کی حالت دیکھ لیں، وہ بولتے ہیں کہ مسجد قیامت تک قائم رہے گی، لیکن جو پیچھے سے مسجد گرانے والے ہیں ان کے ساتھ سمجھوتہ بھی ہوا ہے۔
اگر یہ شامل نہیں تو پھر وہی منظر سامنے آیا جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ پاکستان جیسی زمین پر بھی مسجد اس طرح گرائی جا سکتی ہے؟
ہو سکتا ہے وہ غلط جگہ پر بنی ہو، لیکن جب بن رہی تھی تو کون دیکھ رہا تھا؟
پھر آج کیوں؟
اگر گرانا ضروری تھا تو وہاں کے ناظمین پر اعتماد کیوں نہیں کیا گیا؟
ایک جگہ کی تعمیر کی وجہ سے دوسری جگہ کے لوگ متاثر کیوں ہوئے؟
لوگوں کے کاروبار، دکانیں، روزگار سب کا کوئی مناسب انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟
آخر میں، میں کون سا دکھڑا سناؤں؟
میرا سینہ زخمی ہے۔ اگر میری باتوں سے آپ کے دل کو تکلیف پہنچی، یا نیند حرام ہوئی، یا کسی طرح جھٹکا لگا،
تو یہ میری خوش نصیبی ہے۔
اور اگر آپ کے سر پر کوئی اثر نہ ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ میں نے اپنا کام صحیح طریقے سے کیا،
کیونکہ آخرکار، صرف آپ کا اپنا نصیب ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ مجھے ہمیشہ سچ اور حق کے ساتھ جوڑے رکھے، اور حسن اور نیکی کے راستے میں میرے ساتھ ہو۔ آمین، سبحان اللہ، آمین۔
میری دل کی دعا ہے کہ آپ سب بھی خوش رہیں اور اللہ کی طرف آئیں، کیونکہ یہی ہمارا صحیح راستہ ہے۔
یا اللہ، اس کائنات کے مالک، ہم سب کو اپنے راستے کی طرف رہنمائی عطا فرما۔
ہمیں حق و انصاف کے راستے سے ہٹنے نہ دینا، اور ہمیں عملی طور پر اپنے فرائض پورے کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین، سبحان اللہ، آمین۔
— ایم عرفان احمد صدیقی —
#pakistan #14agust #paksitankiazadi #1947partition #kiyapakistanazadha #azadipakitan
No comments:
Post a Comment