آزادی اور آج کا پاکستان
کیا آج کا پاکستان ہمارے بزرگوں کا پاکستان ہے؟
تحریر: محمد عرفان صدیقی
14 اگست – خوشی یا دکھ کا دن؟
پاکستان کی آزادی کا دن 14 اگست خوشیوں کے ساتھ ساتھ دکھ بھری یادوں کا بھی دن ہے۔ یہ دن لاکھوں قربانیوں، ہجرتوں، خون اور آنسوؤں کی یاد دلاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
کیا پاکستان میں رہ جانے والوں اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کے دکھ اور خوشیاں برابر ہیں؟
کیا جنہیں ہجرت نہ کرنی پڑی وہ مہاجرین کے درد کو سمجھ سکے؟
اور کیا کبھی کسی نے ان کی قربانیوں پر دو لفظ ہمدردی یا حوصلے کے کہے؟
میری اپنی فیملی بھی ہریانہ کے ضلع کرنال کے علاقے اور "کھارو کھیتا" اور "رتن گڑھ" سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھی۔
آپ کو پتہ ہے وہ کیوں آئے تھے؟
خون تو اپنوں کا ہو یا پرایوں کا، بہنا نہیں چاہیے تھا۔ مگر بہا۔ یہ درد صرف وہ جان سکتا ہے جو اس سے گزرا ہو۔ باقی سب کے لیے یہ صرف ایک کہانی ہے۔
پاکستان کا خواب اور آج کی حقیقت
ہمارے بزرگ صرف اس لیے ہجرت کر کے پاکستان آئے کہ یہاں انصاف ہوگا، بھائی چارہ ہوگا، خوف و جبر نہیں ہوگا۔
لیکن آج کا پاکستان دیکھ کر سوال اٹھتا ہے:
کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟
کیا قربانیاں اس لیے دی گئی تھیں کہ آج غریب کی ریڑھی سڑک پر ٹوٹ کر پڑی رہے اور اس کی عزت نفس روند دی جائے؟
کیا یہ ملک صرف طاقتوروں کے لیے بنایا گیا تھا؟
معاشرتی زوال کی علامات
آج ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار ہے۔ گھروں کے اندر صفائی اور ترتیب ہے مگر گلیوں اور بازاروں میں گندگی اور بدبو کا ڈھیر۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ اجتماعی شعور ختم ہو چکا ہے۔ ہر شخص صرف اپنے لیے سوچتا ہے:
"میرا گھر، میری فیملی، میرا فائدہ… باقی سب بھاڑ میں جائیں۔"
اسی وجہ سے نظام کمزور ہو کر بکھر چکا ہے۔ سیاست سے لے کر عدلیہ تک، کاروبار سے لے کر اداروں تک، ہر سطح پر کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی عام ہے۔
مایوسی یا نئی شروعات؟
جب لکڑی کا ایک ٹکڑا ٹوٹتا ہے تو اسے جوڑا جا سکتا ہے، مگر جب پوری لکڑی ہی ٹوٹ جائے تو یا تو آگ لگا کر نئی لکڑی ڈھونڈنی پڑتی ہے یا دوبارہ نئے سرے سے آغاز کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان آج پھر 1947 کے موڑ پر کھڑا ہے، لیکن اس بار ہجرت نہیں بلکہ شعور کی ضرورت ہے۔
معاشرے میں ایک مشہور پنجابی کہاوت ہے:
"چور اچکا چودھری تے لوچی رن پردان"
یعنی جب شریف لوگ کنارے ہو جائیں تو پھر لچے لفنگوں کا راج ہو جاتا ہے۔ اور یہی حال آج کے پاکستان کا ہے۔
قوم کے لیے اصل راستہ
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ:
"جو قوم اپنا کام خود نہیں کرتی، میں اس پر اپنی رحمت نازل نہیں کرتا۔"
لہٰذا صرف دعاؤں اور نعرے بازی سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں:
اپنی ذمہ داری کو پہچاننا ہوگا۔
ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔
انصاف اور حق کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔
دعا
آخر میں میری یہی دعا ہے:
"یا اللہ! ہمیں سچ کے ساتھ کھڑے رہنے کی ہمت دے۔ ہمیں حق کے ساتھ جوڑے رکھ۔ ہمیں زندہ قوم بنا جو ظلم کے آگے نہ جھکے بلکہ اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ ہمیں وہ پاکستان عطا کر جو ہمارے بزرگوں کا خواب تھا اور قائداعظم کا تصور تھا۔"
آمین ثم آمین۔
#pakistan #14agust #paksitankiazadi #1947partition #kiyapakistanazadha #azadipakitan
No comments:
Post a Comment